اٹھارہویں آئینی ترمیم کے تحت وفاق اور صوبوں کے درمیان ہر پانچ سال بعد این ایف سی ایوارڈ کی شکل میں مالیاتی وسائل کی تقسیم کی شرح اور دیگر امور کا تعین لازمی ہے ۔ یہ کام قومی مالیاتی کمیشن کی ذمے داری ہے جس کی تشکیل صدر مملکت کرتے ہیں۔تاہم پچھلے پندرہ برسوں سے یہ معاملہ تعطل کا شکار چلا آرہا تھا ۔ 2009ءمیں ساتواں این ایف سی ایوارڈ طے پایا اور 2010ء میں نافذ ہوا تھا لیکن اس کے بعد ہر پانچ سال بعد نئے ایف سی ایوارڈ کے لائے جانے کے بجائے اسی میں توسیع کی جارہی تھی۔ لہٰذا یہ تاثر عام تھا کہ نیا ایوارڈ جاری نہ ہونا آئین کی خلاف ورزی ہے اور اس طرح صوبوں کو ان کے جائز حق سے محروم رکھا جا رہا ہے۔ دوسری جانب وفاقی حکومت بھی حالات کے تقاضوں کے تحت مالیاتی ایوارڈ پر نظر ثانی کی ضرورت محسوس کررہی تھی کیونکہ اس کے مطابق زیر عمل ایوارڈ کے تحت محصولات میں وفاق کا حصہ کم ہوجانے سے کی وجہ سے اسے مشکلات کا سامنا ہے۔ اس تناظر میں یہ بات اطمینان بخش ہے کہ صدر مملکت آصف علی زرداری نے گزشتہ روز 11واں قومی مالیاتی کمیشن تشکیل دے دیا ہے۔ وزارت خزانہ کے اعلامیے میں بتایا گیا ہے کہ کمیشن کے ارکان کی تعداد 9ہوگی۔وفاقی وزیر خزانہ قومی مالیاتی کمیشن کے چیئرمین مقرر کیے گئے ہیں جبکہ دیگر ممبران میں چاروں صوبوں کے وزرائے خزانہ کے علاوہ ماہرین میں پنجاب سے ناصر محمود کھوسہ‘ سندھ سے ڈاکٹر اسد سعید‘ خیبرپختونخوا سے ڈاکٹر مشرف رسول اور بلوچستان سے فرمان اللہ کمیشن کے رکن ہونگے۔ 11ویں قومی مالیاتی کمیشن کے قواعد وضوابط اور ٹرمز آف ریفرنس کے مطابق مالیاتی کمیشن وفاق اور صوبوں میں محصولات کی تقسیم اور وفاقی حکومت کی جانب سے صوبائی حکومتوںکو امدادی گرانٹس کا تعین کرے گا۔ مالیاتی کمیشن وفاق اور صوبوں کو قرض حاصل کرنے کے اختیارات کا تعین کے علاوہ وفاق اور صوبوں کے مابین مالی وسائل و اخراجات کی تقسیم کے امور بھی طے کریگا۔نئے قومی مالیاتی کمیشن کیلئے وفاق اور صوبوں کے درمیان وسائل کی ایسی منصفانہ تقسیم کہ سب مطمئن ہوں یقینا ایک مشکل امتحان ہوگی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک جانب وفاق کو ساتویںاین ایف سی ایوارڈ کے بعد بڑھتی ہوئی مالی مشکلات درپیش ہیں کیونکہ اس کے تحت صوبے قومی مالیاتی وسائل کا بیشتر یعنی 57.5 فیصد حصہ حاصل کررہے ہیں ۔ سالانہ گرانٹس کو شامل کرنے کے بعد کُل ملا کر صوبوں کو وفاقی پول میں سے تقریباً 62 فیصد حصہ مل رہا ہے جس کے بعد وفاق کے پاس بظاہر صرف38فی صد مالی وسائل باقی رہ جاتے ہیں ، جبکہ دوسری جانب چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو کے بقول موجودہ ایوارڈ کے تحت صوبوں کو ذمے داریاں تو دے دی گئی ہیں لیکن ایوارڈ وہی پرانا ہے۔ ان کا مؤقف ہے کہ ایف بی آر کی ٹیکس وصولی میں ناکامی صوبوں کی نہیں بلکہ وفاقی حکومت کی ناکامی ہے۔یہ شکوہ بھی کیا جاتا ہے کہ صوبوں کو وفاق سے جاری ایوارڈ کے مطابق اضافی وسائل ملنا شروع ہی نہیں ہوئے۔وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال کی یہ رائے بھی کمیشن کیلئے یقیناً قابل غور ہوگی کہ قومی مالیاتی ایوارڈ کے تحت وسائل کی تقسیم صرف آبادی کے بجائے مسائل کی بنیاد پر بھی ہونی چاہئے۔یہ تاثر بھی عام ہے کہ عوامی مسائل کے حل کیلئے اختیارات اور وسائل کا مقامی حکومتوںاور بلدیاتی اداروں تک منتقل ہونا لازمی ہے لیکن سیاسی حکومتیں اپنے ارکان اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز دے کر سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہیںاور وسائل مقامی حکومتوں تک پہنچتے ہی نہیں جس کی بنا پر ملک بھر میں عوام کو شہری سہولتوں کے فقدان کا مسئلہ درپیش رہتا ہے ۔امید ہے کہ نیا قومی مالیاتی کمیشن تمام ضروری پہلوؤں کو ملحوظ رکھتے ہوئے ایسے منصفانہ فیصلے کرنے میں کامیاب ہوگا جو ملک کی مجموعی ترقی اور عوامی خوشحالی کا ذریعہ بنیں۔