سب سے پہلے تو سلام ان درد مند پر خلوص پاکستانی افراد کو، تنظیموں کو جو دشوار گزار سیلاب زدہ پہاڑی علاقوں میں کراچی اور دوسرے دور دراز علاقوں سے امدادی سامان راشن لے کر پہنچ رہے ہیں ۔اب ضرورت ہے وہاں تعمیر نو کی، غریب کوہستانیوں نے پیسہ پیسہ جوڑ کر جو گھر بنائے تھے وہ اچانک طوفانی ریلوں میں بہہ گئے ۔کیا ہمارے بلڈر حضرات کراچی لاہور ملتان کوئٹہ سے آگے آئیں گے؟ کیا آباد والے پیشکش کریں گے۔ واثق نعیم صاحب پیش قدمی کریں گےکہ کے پی کے ،گلگت بلتستان ،آزاد جموں کشمیر میں بے گھر ہونے والوں کو دوبارہ چھت دلوا دیں ۔
کراچی میں بھی صرف دو تین دن کی شدید بارش نے آفت کا سماں پیدا کر دیا ہے۔ اسکولوں میں چھٹیاں دفتروں میں چھٹیاں۔ یہاں بھی بہت سے نوجوان اور تنظیمیں اپنے طور پر رضا کارانہ انداز میں شاہراہ فیصل پر پھنسی بسوں ،ویگنوں، کاروں، رکشوں اور موٹر سائیکل سواروں کو پانی جوس بریانی فراہم کرتےرہے۔ کورنگی میں ایک صنعت کار نے اپنے کارخانے کے دروازے کھول دئیے اور کھانا سینکڑوں ہم وطنوں کو کھلایا۔ فیس بک پر کئی مہربان پاکستانیوں نے اپنے فون نمبر، واٹس ایپ نمبر دے دیے، اپنا پتہ بھی کہ اس علاقے میں کوئی اگر بارش کی وجہ سے رکا ہوا ہے تو ان کے گھر دفتر میں عارضی پناہ لے سکتا ہے اگر رات کو رکنا چاہے تو رک بھی سکتا ہے ۔یہ وہی جذبہ تھا جو سندھ میں 1947ءمیں پہلے سے موجودپاکستانیوں نے نئے پاکستانیوں کیلئے اختیار کیا تھا۔ کھوکھرا پار سے آنے والوںکیلئے میرپور خاص حیدرآباد اور دوسرے شہروں کے چھوٹے بڑے خاندانوں نے اپنے دل اور گھروں کے دروازے کھول دیئے تھے۔
بلدیاتی ادارے ہوں ،صوبائی محکمےیا وفاقی وزارتیں وہ ہمیشہ کی طرح ناکام رہے۔ تاثر یہ دیا جا رہا ہے کہ بارشیں غیر معمولی ہوئی ہیں۔ پہلے سے محکمہ موسمیات موسمیاتی تبدیلی کے عالمی ادارے تو خبردار کر رہے تھے کہ کس شدت کے سیلاب آ سکتے ہیں تو آپ نے مطلوبہ تیاری کیوں نہیں کی تھی ۔ ترقی یافتہ ممالک میں بھی بادل پھٹتے ہیں برساتی ریلے آتے ہیں وہاں پہلے سے بڑے بڑے اسکولوں کی ،دفتروں کی عمارتیں اس مقصدکیلئے استعمال کی جاتی ہیں ۔امریکہ میں ہوم لینڈ سیکورٹی نے ایک بریفنگ میں جنوبی ایشیا کے کچھ ایڈیٹروں کو وہ پناہ گاہیں اور ممکنہ انتظامات بھی دکھائے تھے جہاں بیک وقت چار سے پانچ ہزار افراد کے فوری قیام طعام کا انتظام ہو سکتا تھا۔ پہلے سے متعلقہ ٹھیکے داروں سے معاہدے کیے ہوئے ہوتے ہیں زلزلے سیلاب یا کسی اور آفت ناگہانی کی صورت میں آبادی کی منتقلی کھانے پینے کے انتظامات پہلے سے تیار ہوتے ہیں ۔
آفریں ہے دینی مدارس کے طالب علموں پر کہ انہوں نے کے پی کے، گلگت آزاد کشمیر میں اورکراچی میں بھی تربیت یافتہ رضاکاروں کی طرح اپنے ہم وطنوں کی مدد کی۔ کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن ملک کے سب سے بڑے شہر میں زندگی کی آسانیوں کیلئے اربوں روپے کا بجٹ رکھتی ہے۔ ایک میئر ہے کئی ٹاؤن چیئرمین ہیں یونین کونسلیں ہیں پہلے سے تیاری تو کیا عین وقت پر بھی کچھ نہ کر سکیں ۔ سڑکیں گلیاں دریا ندی نالے بن جاتی ہیں ،انڈر پاس سوئمنگ پول ۔برسات کے یہ دو ڈھائی مہینے پورے ایک سال بعد آتے ہیں اس لیے بلدیاتی ادارے پوری تسلی سے دیکھ سکتے تھے کہ بارشیں ہوں گی تو پانی کی رفتار اور مقدار کیا ہوگی۔ نالے کس حد تک صاف ہیں ۔صفائی کر کے گند اور کچرا نالوں کے کناروں پر ہی جمع کر دیا جاتا ہے مینہ برستا ہے تو وہ گند پھر نالوں میں چلا جاتا ہے ۔
آج اتوار ہے ۔اپنے بیٹوں بیٹیوں ،پوتوں پوتیوں، نواسوں نواسیوں، بہوئوں دامادوں کے ساتھ دوپہر کا کھانا کھانے انکے سوالات سننے تسلی بخش جواب دینے کا۔آج ضرور باتیں ہوں گی بارش کی۔ کے پی کے میں گھروں کے بہہ جانے کی۔ ملک میں کتنے بڑے بڑے اسکول گروپ ہیں جو فیسوں سے ہونے والی آمدنی بڑی صنعتوں میں لگا رہے ہیں کیا انہوں نے آفت زدگان کیلئے کوئی ریلیف فنڈ قائم کیا۔ بڑے بڑے کمرشل بینک ہیں۔ کسی نے امداد کی کوشش کی۔ یہ بہت بڑی آفت ہے اور ابھی یہ جارحانہ سلسلہ جاری ہے۔ گلیشیر پگھل رہے ہیں بادل پھٹ رہے ہیں کہیں آس پاس طوفان جنم لے رہے ہیں۔ ہم ایٹمی طاقت ہونے پر فخر کرتے ہیں دنیا کی مانیٹرنگ ایجنسیاں بھی ہمارا ریٹ بڑھا رہی ہیں وزیر خزانہ بشارتیں دے رہے ہیں لیکن 600 سے زیادہ لوگ لقمہ اجل ہو گئے سینکڑوں گھر بہہ گئے۔ مال مویشی چلے گئے۔ ریاست کے عہدے داروں کے بیانات سے ریاست اس آفت کے سامنے عجز کا شکار نظر آتی ہے قومی سیاسی جماعتیں جو قیادت کا دعویٰ کرتی ہیں وفاق میں حکومت کر رہی ہیں۔ صوبوں میں مسند نشیں ہیں ان میں سے کسی نے بھی اپنی مرکزی مجلس عاملہ یا سینٹرل کمیٹی کا اجلاس بلایا۔ ان آفت زدہ علاقوں میں کیا وہ متاثرین سے ملے۔ صورتحال پر غور و خوض کر کے کوئی طویل المیعاد لائحہ عمل تیار کیا۔ وقت اب بھی بیان بازی میں گزر رہا ہے۔ کوئی یونیورسٹی ،کوئی میڈیا ہاؤس، کوئی تحقیقی ادارہ رپورٹ تیار کر رہا ہے کیا کیا ہوا کیوں ہوا؟۔ وفاق کی کہاں کوتاہی ہے اور صوبے کی کہاں۔
موسم تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے لیکن ہم پاکستانی اور خاص طور پر اشرافیہ تبدیل نہیں ہو رہی ۔سرکاری معاملات ہوں آئینی قانونی یا سیاسی یا سماجی وہ الجھتے جا رہے ہیں۔ نئے صوبوں کی باتیں ہو رہی ہیں ۔سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس نے بہت سے سوالات کو جنم دے دیا۔
جتنی بڑی آفت سے ملک کا ایک بہت بڑا رقبہ متاثر ہوا ہے اور ابھی ہو رہا ہے۔ اس کے بعد بہت زیادہ سنجیدگی کی ضرورت ہے پاکستان کی ریاست جس عظمت نزاکت اور اہمیت کی حامل ہے انتہائی اہم محل وقوع دو بڑے آبادی والے ملک ہمارے ہمسائے۔ ایران ہمیشہ امریکہ کی آنکھوں میں کھٹکتا ہے وہ ہمارا پڑوسی۔ افغانستان ہمارا دیوار بہ دیوار ہمسایہ۔ ایسے انتہائی حساس خطے میں ایک 25 کروڑ کے ملک کے قائدین جس بلند تدبر اور ادراک کے حامل ہونے چاہئیں کیا وہ ہیں۔ کیا ہم بحیثیت قوم کسی پختگی اور بلوغت کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی کی خبرداری تو 90 کی دہائی سے بہت زیادہ شدت سے ہو رہی ہے ہماری آبادی بڑھنے کی شرح بھی بہت زیادہ تیز ہے اس سے بھی مسائل بڑھ رہے ہیں ۔کیا متعلقہ وزیر کوئی مفصل بیان جاری کریں گے کہ ہماری تیاری کس سطح کی ہے گلیشیر پگھلنے سے جو ریلے آ رہے ہیں انہیں سنبھالنے کی سکت کتنی ہے متاثرہ علاقوں میں کیا کوئی محفوظ پناہ گاہیں تعمیر کی گئیں ۔یہ بھی بتایا جائے کہ ہم کتنے فیصد انسانی جانیں بچانے کی حکمت عملی رکھتے ہیں ۔
اس آفت نے تو نہیں دیکھا کہ سامنے آنے والے کس جماعت سے، کس مسلک سے تعلق رکھتے ہیں، کون سی زبان بولتے ہیں تو کیا ہمیں بھی ایک آل پارٹیز کانفرنس اس سلسلے میں نہیں بلانی چاہیے جہاں مذہب مسلک زبان نسل سے بالاتر ہو کر سوچا جائے کہ پورے ملک کو ایسی آفات سے کس طرح بچایا جا سکتا ہے۔