• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خیبر پختونخوا میں بارشوں، بادل پھٹنے، سیلاب اور آسمانی بجلی کے گرنے کے واقعات میں جاں بحق افراد کی تعداد ساڑھے300سے تجاوز کر گئی ہے جبکہ زخمی ہونیوالوں کی تعداد 700کے لگ بھگ ہے۔ ایک اندازے کے مطابق، صرف ضلع بونیر میں 20ارب روپے سے زائد کا مالی نقصان ہوا ہے۔ پراونشل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) کی رپورٹ کے مطابق، بونیر میں 213، شانگلہ میں 35اور مانسہرہ میں 23افراد جاں بحق ہوئے۔ باجوڑ 21، سوات 20، بٹگرام 15اور دیر زیریں میں 5افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ سیلاب کے باعث باجوڑ اور شانگلہ میں 8،8 افراد زخمی ہوئے، دیر زیریں 3 اور مانسہرہ میں 2افراد زخمی ہوئے۔ سیلاب سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے علاقوں میں بونیر، سوات، باجوڑ، تورغر، مانسہرہ، شانگلہ اور بٹگرام شامل ہیں۔بے شک پنجاب، سندھ اور بلوچستان سمیت اس وقت پورا ملک موسمیاتی تبدیلیوں کے مضر اثرات کی زد میں ہے تاہم لینڈ سلائیڈنگ اور کلاؤڈ برسٹ کے نتیجے میں آنےوالے سیلابی ریلوں کی زد میں سب سے زیادہ کےپی کے علاقے آ رہے ہیں جہاں مون سون کی آمد سے قبل ہی گلیشیر پگھلنے اور تیز بارشوں کے دوران کلاؤڈ برسٹ سے انسانی جانی اور مالی نقصانات کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ یقیناً ان قدرتی آفات سے ہونیوالے نقصانات سے تنہاکوئی ملک صرف اپنے وسائل کیساتھ عہدہ برا ٓنہیں ہو سکتا اسلئے موسمیاتی تبدیلیوں کے ممکنہ نقصانات کا جائزہ لینے کیلئے اقوام متحدہ کے زیراہتمام منعقد ہونیوالی عالمی کانفرنسوں میں اس امر پر زور دیا جاتا رہا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کا باعث بننے والے صنعتی ترقی یافتہ ممالک موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہونیوالے ممالک بشمول پاکستان کا امدادی کاموں میں ہاتھ بٹائیں۔ گزشتہ سال یو این سیکرٹری جنرل گوتریس نے بھی بطور خاص ترقی یافتہ ممالک سے یہی اپیل کی تھی جس پر کچھ ممالک نے پاکستان میں امدادی کاموں کیلئے گرانٹس مختص کیں اور کچھ ممالک نے امداد کا وعدہ کیا جو ابھی تک تشنہ تکمیل ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں بیرونی امداد میں خوردبرد کا کلچر بھی خاصہ مستحکم ہو چکا ہے چنانچہ متاثرین تک امدادی رقوم نہ پہنچنے کی شکایات بھی عام ہیں اور شمالی علاقہ جات میں 2005ءکے زلزلہ متاثرین بھی اب تک امداد کو ترس رہے ہیں۔ اس تناظر میں جہاں بیرونی امداد پر چیک اینڈ بیلنس کے موثر سسٹم کی ضرورت ہے وہیں متاثرہ علاقوں میں امدادی کاموں پر سیاست کا بھی کوئی عمل دخل نہیں ہونا چاہئے۔ کلاؤڈ برسٹ کے علاوہ بھارت کی جانب سے پانی چھوڑنے کے باعث ہمارے ملک میں مزید سیلابی ریلے اٹھنے کے خدشات موجود ہیں اسلئے ضرورت اس امر کی ہے کہ بیرونی امداد کا انتظار اور اس پر تکیہ کئے بغیر ملک میں دستیاب وسائل کو بروئے کار لا کر قدرتی آفات سے ہونے والے نقصانات کم کرنے کی کوشش کی جائے ۔دوسری جانب پاکستان کا معاشی دار الحکومت کراچی ملکی معیشت کا مرکزی ستون ہے، جو سالانہ 68فیصد ریونیو پیدا کرتا ہے۔ ایک بار پھر بارش کے بعد پانی میں ڈوبا ہوا ہے۔چند گھنٹوں کی موسلادھار بارش نے انتظامیہ کے دعوؤں کی قلعی کھول دی ۔شہر کے بیشتر علاقے جھیل کا منظر پیش کرنےلگے۔صورتحال یہ تھی کہ شہر کی مرکزی شاہراہیں، شاہراہ فیصل، ایم اے جناح روڈ، یونیورسٹی روڈ،نارتھ ناظم آباد اور صدر سمیت بیشتر علاقے بارش کے پانی میں ڈوبے ہوئے تھے۔یہ شہر نہ صرف پاکستان کی معاشی ترقی کا انجن ہے بلکہ ثقافتی،سماجی اور صنعتی سرگرمیوں کا مرکز بھی ہے۔لیکن بدقسمتی سے یہ عظیم شہر مسائل کے دلدل میں پھنسا ہواہے۔ہر سال مون سون کی بارشوں کے نتیجے میں کراچی کی سڑکیں بند نالوں کا منظر پیش کرتی ہیں،ٹریفک جام ہوتا ہے،نظام زندگی مفلوج ہوجاتا ہے اور سیلابی صورتحال شہر کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔اس شہر کے نکاسی آب کے مسائل کی جڑیں برسوں پرانی ہیں۔2001ءسے 2005ء تک کراچی کے میئر نعمت اللہ خان مرحوم نے شہر کے نکاسی آب کے نظام کو بہتر بنانے اور شہر کی ترقی کیلئے جامع منصوبے بنائے تھے۔ان منصوبوں نے شہر کی حالت بہتر بنانے کی امید جگائی تھی۔ لیکن اسکے بعد سے اربوں روپے کا بجٹ مختص ہونے اور خرچ ہونے کے دعوؤں کے باوجود زمینی سطح پر کوئی قابل ذکر کام نہیں ہوا۔کراچی میں 43بڑے اور 514چھوٹے ندی نالے موجود ہیں،لیکن ان میں سے کوئی بھی نکاسی آب کی ضرورت پوری کرنے کے قابل نہیں۔ برسوں سے صفائی نہ ہونے اور قبضہ مافیا کی رکاوٹوں کی وجہ سے یہ ندی نالے شہری سیلاب کا بنیادی سبب بن چکے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ کراچی کی بدحالی میں ہر سیاسی جماعت برابر کی شریک جرم ہے،سیاسی قیادت کیساتھ ساتھ صوبائی حکومت،مقامی انتظامیہ اور وفاقی اداروں سمیت کوئی بھی ذمہ داری سے بری نہیں۔سیاسی نعرے بازی، الزام تراشی اور کھوکھلے دعوؤں نے شہر کے مسائل کو حل کرنے کے بجائے مزید گھمبیر کردیا ہے۔ کراچی کو منی پاکستان کہا جاتا ہے، اس منی پاکستان کو سنبھالنے کیلئے تمام متعلقہ اداروں کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔سیاسی مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے شہرکی ترقی اور بحالی کیلئے ٹھوس اقدامات ناگزیر ہیں۔وفاقی حکومت کی جانب سے ملک بھر کے متاثرین کیلئے مختص کردہ ریلیف بجٹ ایک خوش آئند اقدام ہے۔اسے کسی بھی طرح سیاسی فائدے یا دکھاوے کیلئے استعمال نہیں ہونا چاہیے۔کراچی کے مسائل کا مستقل حل نکاسی آب کے نظام کی بحالی،ندی نالوں کی صفائی اور قبضہ مافیا کیخلاف سخت کارروائی میں مضمر ہے۔اگر اب بھی توجہ نہ دی گئی تو یہ شہر بڑے پیمانے پر تباہی کا شکار ہوسکتا ہے۔وقت آگیا ہے کہ کراچی کو آفتوں سے بچانے کیلئے سب مل کر ایک جامع اور پائیدار حکمت عملی اپنائیں۔

تازہ ترین