تابوتِ سکینہ ایک مقدس صندوق ہے جس کا ذکر قرآن، انجیل اور دیگر آسمانی کتابوں میں بھی ملتا ہے۔
تابوتِ سکینہ بنی اسرائیل کے لیے ایک بہت بڑی نشانی اور برکت کا ذریعہ تھا۔
تابوت کا مطلب صندوق اور سکینہ کا مطلب سکون اور اطمنان ہے، اس طرح تابوتِ سکینہ کے معنی سکون یا اطمنان کا صندوق بنتے ہیں۔
صندوق کا تاریخی پسِ منظر
اسلامی روایات کے مطابق یہ صندوق حضرت آدم علیہ السلام پر نازل ہوا تھا، بعد ازاں یہ تابوت نسل در نسل منتقل ہوتا رہا اور بالآخر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس پہنچا۔
تابوتِ سکینہ میں کئی انبیاء کرام کے تبرکات موجود ہیں جن میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا وہ عصاء بھی شامل ہے جس کے ذریعے انہوں نے دریا میں راستہ بنایا اور پتھر سے پانی کے چشمے نکالے تھے جبکہ حضرت ہارون علیہ السلام کی وہ تختیاں بھی موجود ہیں جن پر تورات لکھی گئی تھی۔
قرآن مجید کی سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 248 کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ جب بنی اسرائیل نے اپنے نبی سے ایک بادشاہ مقرر کرنے کا مطالبہ کیا تاکہ دشمنوں سے جنگ کر سکیں تو نبی نے اللّٰہ کے حکم سے طالوت کو بادشاہ مقرر کیا، بنی اسرائیل نے طالوت کی بادشاہت پر شک ظاہر کیا تو نبی نے فرمایا کہ طالوت کے بادشاہ ہونے کی نشانی یہ ہے کہ تمہارے پاس وہ تابوت واپس آجائے گا جسے دشمن تم سے چھین لے گئے تھے۔
پھر ایسا ہی ہوا کہ اللّٰہ کے حکم پر فلسطینیوں نے تابوت کو بیل گاڑیوں پر رکھ کر بنی اسرائیل کے علاقے کی جانب ہانک دیا، فرشتے اُن بیلوں کو سیدھا طالوت کے گھر کے پاس لے آئے، اس طرح تابوتِ سکینہ بنی اسرائیل کو واپس مل گیا، جس سے ان کو یقین ہو گیا کہ طالوت ہی اُن کے بادشاہ ہیں۔
اس صندوق کی برکت سے بنی اسرائیل کے دلوں میں سکون اور اطمنان پیدا ہوا، اور وہ جالوت کے خلاف جنگ میں کامیاب ہو گئے۔
تابوتِ سکینہ کی بناوٹ کیسی ہے؟
جیونیوز کے ڈیجیٹل پلیٹ فارم، یوٹیوب چینل پر جاری کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق اسلامی روایات میں تابوتِ سکینہ کی بناوٹ سے متعلق بہت کم معلومات ملتی ہیں۔
دوسری جانب انجیل اور یہودیوں کی کتابوں میں اس کی کافی تفصیلات موجود ہیں جن کے مطابق تابوتِ سکینہ ببول کی لکڑی سے بنا ہوا تھا، اندر اور باہر خالص سونے سے مزین اس تابوت کی لمبائی 3 گز اور چوڑائی 2 گز تھی۔
تابوت کا ڈھکن خالص سونے سے بنا ہوا ہے جسے کفارہ کا نام دیا گیا تھا، اس ڈھکن کے دونوں اطراف سونے سے فرشتوں کے اشکال کے دو مجسمے بنائے گئے تھے، ان کے پَر پھیلے ہوئے تھے۔
تابوتِ سکینہ کے ہر کونے میں ایک سونے کا حلقہ بنا ہوا تھا جس میں ببول کی لکڑی سے بنے ڈنڈے ڈال کر اس کو اٹھایا جاتا تھا۔
یہ مقدس صندوق اس وقت کہاں ہے؟ اس سے متعلق مختلف آراء موجود ہیں، لیکن تصدیق کے ساتھ کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا تاہم یہی کہا جاتا ہے کہ اس کا علم صرف اللّٰہ تعالیٰ کو ہے کہ یہ تابوت اس وقت دنیا میں کہاں موجود ہے۔
قرآن و حدیث میں جہاں اس تابوت کا ذکر موجود ہے وہاں یہ بحث نہیں کی گئی کہ آیا یہ تابوت کہا پر ہے؟ قرآن اور حدیث نے اس تابوت کے مقام کو مبہم چھوڑا ہے۔