• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مملکت اے مملکت…

ہم سب کو اس رحیم و کریم کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ ہمیں غذرکے گاؤں تاکہ داس میں ایک چرواہے وصیت خان کے وجود سے نوازا ۔جو ہم سب پر بازی لے گیا ۔وہ اس عہد کا سب سے بڑا درد مند،فرض شناس، انسان دوست ثابت ہوا جسکے زندہ ضمیر 'بیدار دماغ نے بروقت برملا فیصلہ کیا کہ آتی قیامت دیکھ کر اسے کیا کرنا چاہیے ،اب اس کی اولین ترجیح کیا ہونی چاہئے۔وہاں کے خصوصی موبائل فون کو قدرت نے رات کے اس پہر سگنل بھی عطا کیے ۔میرے خیال میں تو یہ گزشتہ کئی برسوں میں موبائل فون کا بالکل صحیح استعمال بھی تھا۔ چرواہے اور انکی بھیڑ بکریاں آتے موسموں کی آہٹ سن لیتی ہیں ۔فورا اپنے گاؤں کے بزرگوں ذمہ داروں کو اطلاع دی’’سیلاب آرہا ہے‘‘۔ گھر چھوڑ کر کسی محفوظ مقام پر منتقل ہو جاؤ ۔چرواہے کا نام وصیت خان بتایا جا رہا ہے ۔وہ صرف غذر نہیں پورے پاکستان کا ہیرو بن گیا ہے۔ ہم خوش قسمت ہیں کہ وصیت خان کے ہم وطن ہیں۔ یہ ذمہ داری تو کمشنروں ڈپٹی کمشنر نے بھی نہیں دکھائی۔ ایسا صاحب ادراک تو کوئی ایم این اےبھی نہیں گزرا ۔ وفاقی وزراء نے بھی اس طرح بروقت فہم کا مظاہرہ نہیں کیا ۔گلگت بلتستان آزاد جموں و کشمیر خیبر پختون خواکے متاثرہ علاقوں میں یقیناً وصیت خان جیسے صاحب احساس اورہم وطن بھی ہوں گے۔ درد مند پاکستانیوں کا فرض ہے کہ وہ ایسے بیدار مغز ہم وطنوں کی سچی کہانیاں یکجا کریں ۔بے حسی اور بدعنوانی کے سمندر میں یہ بیداری،دستگیری اور آگہی کے جزیرے ہیں یہ رحجان تحقیق طلب ہے، بے حسی کا رویہ سوشل میڈیا کے سبب ہے یا میڈیا پر ناروا پابندیوں کی وجہ سے یا حکمرانوں کے رویے کی بنیاد پر یا پورا سسٹم خراب ہونے کی بنا پر کہ ہم ان آفتوں کو روکنے میں،ان سے عہدہ بر آ ہونے میں ناکام رہے ہیں ۔ ایک تشویش ناک پہلو یہ بھی ہے کہ پاکستان میںآبادی میں اضافے کی شرح 2.55 فیصد ہے ۔اس عمل میں پاکستان پیش پیش رہنے والے ملکوں میں شامل ہے۔ جس تناسب سے انسانوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ ان کو ملنے والی سہولتوں کی شرح وہ نہیں ہے۔ اس لیے پورا نظام درہم برہم ہے وسائل کی تقسیم منصفانہ نہیں ہے ۔دولت کی موجودگی بھی متناسب نہیں ہے۔ کسی شعبے میں طلب اور رسد میں مطابقت نہیں ہے۔ اسی طرح آفات ناگہانی کی بہت پہلے سے خبرداری کے باوجود ان سے نمٹنے کا تناسب وفاقی صوبائی بلدیاتی کسی سطح کی حکومت کا ضرورت کے مطابق نہیں رہا۔اس آفت کا مقابلہ کرنے میں حکمران ناکام تو ہوئے ہیں لیکن انکے لہجے میں کسی ندامت کا اظہار بھی نہیں اور نہ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ وہ ان کو تاہیوں سے کوئی سبق سیکھ رہے ہیں۔ کسی بھی سانحے میں چھ سات سو سے زیادہ بچوں، بڑوں، ماؤں، بہنوں کا سیلاب میں بہہ جاناکوئی معمولی واقعہ نہیں ۔مہذب ملکوں میں تو چار پانچ جانیں بھی چلی جائیں تو پارلیمنٹ کا اجلاس طلب کر لیا جاتا ہے۔ تحقیقی ادارے اس انہونی کے اسباب جاننے کیلئے ریسرچر بٹھا دیتے ہیں ۔اگر غور کیا جائے تو سب سے زیادہ ناکامی بلدیاتی اداروں کی ہے اسکے بعد صوبائی حکومتوں کی اور شعبوں کے حوالے سے انجینئرنگ تعمیرات قانون بلڈنگ کنٹرول اتھارٹیز انفارمیشن ٹیکنالوجی سب ناکام ہوئے ہیں ۔اسکے بعد علاج معالجے کے ادارے ہنگامی حالت میں کام کرنے والے شعبے پہلے سے تیاری میں بھی بروقت فیصلے اور اقدامات کرنےمیں بھی نا اہل رہے ہیں۔اور نہ ہی وہ سیاسی اور سماجی پہلوؤں سے حالات کا ادراک کر سکے ۔جمہوری نظام میں لوگوں کو بیدار رکھنے اور ان کےجان و مال کی حفاظت کے انتظامات کی ذمہ داری قومی سیاسی پارٹیوں ہی کی ہوتی ہے۔ موسم کی برہمی کا سلسلہ جب سے شروع ہوا ہے ایسا دکھائی دے رہا ہے کہ قومی سیاسی پارٹیوں کو ان ہلاکتوں سے ،ہنگامی حالات سے کوئی سروکار نہیں ۔ غیر ملکی دور ےہو رہے ہیں۔ کانفرنسوں میں شرکت ہو رہی ہے ۔میں بار بار لکھ رہا ہوں کہ کسی سیاسی پارٹی نے اپنے مرکزی مجالس عاملہ کے اجلاس بلا کر موسمیاتی تبدیلیوں سے پیدا ہونیوالی سنگین صورتحال پر سنجیدگی سے غور نہیں کیا ۔تباہی بربادی کے علاقوں میں اپنی اپنی پارٹی کے عہدےداروں اور کارکنوںسے کوئی تفصیلات طلب نہیں کیں۔میڈیا ہاؤسوں میں بھی بس یہ ہوا ہے کہ معمول کی خبروں میں ایک اور خبر کا اضافہ ہو گیا ۔ایسے ہنگامی حالات میں ملک میں یکجہتی اتحاد اور ہم آہنگی کی ضرورت بڑھ جاتی ہے مروت خلوص درد دل خیال ہم نفسا ں کی طلب میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ لیکن ہمارے ہاں کراچی ہو یا دوسرے شہر ان میں اختلافی مسائل اٹھائے جا رہے ہیں اور پبلک کو فروعی معاملات میں الجھایا جا رہا ہے۔اتنے سارے شعبوں کی بیک وقت ناکامی پر کسی تشویش کا اظہار نہیں ہو رہا ۔سب سے بڑے شہر کے میئر شہر میں زندگی معمول پر نہ ہونے کی ذمہ داری نہیں لے رہے ۔جتنے بڑے پیمانے پر متعلقہ ادارے ناکام ہوئے ہیں اور اب آگے تعمیر نو کا ایک بہت بڑا چیلنج ہے اس کا تقاضا تو یہ ہے کہ ہر سطح پر اتحاد، یکجہتی اور مشکلات کا مقابلہ مل جل کر کیا جائے۔ اس وقت لسانی نسلی شہری دیہی مسائل نہ اٹھائے جائیں۔ سوشل میڈیا پر تو یہ احتیاط اور زیادہ ناگزیر ہے۔ کراچی ہو یا ملک کے دوسرے علاقے برساتی ریلوں نے یہ نہیں دیکھا کہ یہ گاڑی کس زبان بولنے والے کی ہے ،کس کا علاقہ بند ہو رہا ہے پختون کا یا غیر پختون کا،سندھی کا یا غیر سندھی کا ۔سب متاثر ہوئے ہیں۔اسلئے ہمیں بھی یہ چاہیےکہ تعمیر نوکےمرحلے کی تیاری کریں اور اس میں یہ تفاوت نہ کیا جائے۔ زیادہ متاثر کون سی زبان بولنے والے ہوئے ہیں۔ سیلابی ریلے ہمیں بہت سے سبق دے گئے ہیں کراچی اور بڑے شہروںکیلئے تو یہ کہ پبلک ٹرانسپورٹ یعنی بڑی بسوں ڈبل ڈیکروں کا انتظام کیا جائے ۔لگژری کارو ں کی تعداد کم کی جائے ۔سب شہروں کےشوروموں میں بھی ہزاروں گاڑیاں سڑکوں پر آنے کیلئے بیتاب کھڑی ہیں حالانکہ ہماری سڑکیں پہلی گاڑیوں کو ہی نہیں سنبھال پا رہیں۔ برساتی ریلوں میں اتنی چھوٹی بڑی قیمتی گاڑیاں کس طرح بہتی جا رہی دیکھی ہیں سب نے ۔سب سے زیادہ بے کسی کی سواری موٹر سائیکل ہے ۔اگر بڑی بسیں شہروں کی حقیقی ضرورت کے مطابق آ جائیں تو خطرناک بارشوں میں متوسط طبقہ یا غریب لوگ پورے پورے خاندان کو موٹر سائیکل پر لے کر نہ نکلیں۔ دریاؤں کے راستے روک کر ہاؤسنگ سوسائٹیاں نہ بنائیں بڑے برساتی نالے لوگوں کو الاٹ نہ کیے جائیں ۔ہمارے وزراء افسر سیاسی رہنما غذرکے وصیت خان کی بیدار مغزی سے کچھ تو سیکھیں۔

تازہ ترین