• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’بے شک اللّٰہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں جن کی ہیں انکے سپرد کرو اور یہ کہ جب تم لوگوں میں فیصلہ کرو تو انصاف کیساتھ فیصلہ کرو بے شک اللّٰہ تمہیں خوب نصیحت فرماتا ہے بے شک اللّٰہ سنتا دیکھتا ہے۔‘‘ ’’قرآن پاک سورہ النساء آیت 58‘‘

سرور کائنات حضور اکرم رسول اللّٰہ ﷺ نے فرمایا’’ تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور ہر ایک اپنی رعیت کے بارے میں جواب دہ ہے ‘‘۔(بخاری و مسلم)

میں اللّٰہ تعالی کے حضور شکر گزار ہوں کہ اس نے مجھ ناچیز ایک شاعر، ایک صحافی کو یہ عزت بخشی کہ نیشنل انسٹیٹیوٹ آف پبلک ایڈمنسٹریشن نیپا کے باوقار آڈیٹوریم میں پاکستان کے مختلف صوبوں سے تعلق رکھنے والے اعلیٰ افسروں سے ہم سخن ہوں۔ یہ اپنے والدین کی آرزو ہیں اپنے اپنے علاقے کی آبرو ہیں۔ سندھ ،بلوچستان ،بلتستان، پنجاب، اسلام آباد کے ڈپٹی سیکرٹری ڈائریکٹر جنرل 'ایف بی آر اورمختلف محکموں سے تعلق رکھنے والے ایک مصنف کو سن رہے ہیں۔ بار بار میں یہ بھی دیکھ رہا ہوں کہ میری بات غور سے سنی بھی جا رہی ہے، خوشی ہو رہی ہے کہ یہ معزز خواتین و حضرات صرف ہمہ تن گوش ہی نہیں ہیں۔اہم نکات لکھ بھی رہے ہیں ۔میرا موضوع ہے :

’’پاکستان کی آزادی کی سنچری 2047ءکیلئے تیاریاں ‘‘

میں نے انہی کالموں سے اگست 2047ءکو ایک منزل تسلیم کر کے ایک خوددار ،خود مختار، خود کفیل پاکستان کے حصول کی جدوجہد کیلئے درخواست کا آغاز کیا تھا ۔مسلح افواج کے ترجمان ماہنامہ’’ہلال‘‘ کے ایڈیٹر یوسف عالمگیرین نے بھی میری تحریر بھرپور تزئین کے ساتھ اگست کے انتہائی اہم شمارے میں شامل کی۔یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اب میں پاکستان کے اعلیٰ افسروں کے سامنے بھی اپنی اس تمنا کو کچھ تفصیل کے ساتھ پیش کر رہا ہوں ۔ماضی ہمارا اتنا شاندار نہیں رہا ۔قائد اعظم کا پاکستان چھوٹا بھی ہو گیا لیکن اب ہمارے پاس22سال ہیں ایک پوری نسل تیار ہو سکتی ہے ۔آج پرائمری اسکول میں پہلی جماعت کا پاکستانی طالب علم 2047ءمیں 27 سال کا نوجوان ہوگا۔اسے پرائمری ،سیکنڈری، کالج، یونیورسٹی کے طالب علمی کے دور میں ہم خود دار، خود کفیل اور خود مختار پاکستان کیلئے ایک باقاعدہ نصاب مرتب کر کے دے سکتے ہیں کہ پاکستان خودداری خود کفالت اور خود مختاری کیسے حاصل کر سکتا ہے اور کھربوں روپے کے قرضے کیسے اتار سکتاہے۔1953ءمیں پنجاب میں جزوی مارشل لا لگا ہنگامے ہوئے۔ اس پر پنجاب کی وزارت داخلہ نے جو رپورٹ بڑی محنت وتحقیق سے مختلف شعبوں کے ماہرین سے علماء سے مل کر 1954 ءمیں قیام پاکستان کے چھٹے سال میں پیش کی تھی۔ اس وقت کے مذہبی اور انتظامی معاملات پر اس رپورٹ میں جو مشورہ دیا گیا تھا وہ بھی میں نے پڑھ کر سنایا ان پر اگر عمل ہوتا تو آج ہم جن فتنوں اورتنازعات سے دوچار ہیں تو یہ سر نہ اٹھاتے۔ اس میں کہا گیا تھا کہ ایک ایس ڈی ایم اور ایک ایس پی معاملات کو سنبھال سکتا تھا۔ اس میں صوبائی اور مرکزی حکومت کو کودنے کی ضرورت نہیں تھی اور انتظامی معاملات کو سیاسی رنگ نہ دیا جائے ۔

ان صاحبان اختیارات کے سوالات بھی بہت بنیادی تھے میں نے کوشش کی کہ ان کے جوابات دے سکوں ۔آج اتوار ہے۔ اپنے بیٹوں بیٹیوں ،پوتوں پوتیوں، نواسوں نواسیوں ،بہووں دامادوں کے ساتھ دوپہر کے کھانے پر بیٹھنے 'ان کے سوالات سن کر تسلی بخش جوابات دینے کا موقع اور نماز عصر کے بعد محلے کے لوگوں سے مل کر ان کے مسائل جاننے کے لمحات ۔

نیپا پاکستان کے قدیم ترین اداروں میں سے ہے کراچی جب دارالحکومت تھا اس وقت یہ اعلیٰ افسروں کی تربیت کیلئے قائم کیا گیا تھا ۔دیواروں پہ آویزاں تصاویر میں 78سال کے آثار موجود ہیں۔جب سنہرا بنگال بھی پاکستان تھا۔وہاں کے افسر بھی یہاں تربیت کیلئے آتے تھے ۔درد دل رکھنے والا کوئی ایک افسر کسی ادارے میں آجائے تو وہ سارا ماحول بدل کے رکھ دیتا ہے ۔نیپا ڈاکٹر سید سیف الرحمن کے دور میں دوسری بار دیکھ رہا ہوں۔ باہر تو یونیورسٹی روڈ کئی سال سے تجدید کے مراحل سے گزر رہی ہے ،گرد اڑ رہی ہے، ٹریفک ہر سیکنڈ ایک سیلابی ریلے کی طرح بہہ رہا ہے مگر نیپا کی حدود کے اندر ہریالی ہے ہر بار ایک نیا سبزہ زار دیکھنے کو ملتا ہے ۔گزشتہ ملاقات میں میں نے جو پودا لگایا تھا وہ سر بلند ہو چکا ہے ۔آج ایک دوسرے سبزہ دار میں ایک اور شجر لگوایا جا رہا ہے۔

آج کے لیکچر میں میں نے اپنا ایک اور خصوصی موضوع بھی شامل گفتگو کیا کہ پاکستان کا المیہ اپنے شہریوں اور اپنے وسائل کیUnder utilization ہےہم پاکستان کے پورے امکانات کو آج تک دریافت نہیں کر سکے اور نہ انہیں پوری طرح بروئے کار لاسکے۔ اسی طرح انسانوں کی اکثریت کی صلاحیتوں اور خیالات کو بھی پوری طرح استعمال نہیں کیا ہے۔ ہمارے اکثر کارخانے گنجائش سے کم چلتے ہیں ہماری زمینیں پوری طرح کاشت نہیں ہوتی ہیں۔ فی ایکڑ پیداوار بہت کم ہے۔لیکن سید سیف الرحمن نہ صرف اپنی صلاحیتوں کا بھرپور استعمال کر رہے ہیں وہ نیپا کی حدود میں موجود رقبوں برآمدوں ، سیڑھیوں خالی جگہوں سے زیر تربیت افسروں کی معیاری سہولتوں کیلئے بھرپور انداز میں استفادہ کر رہے ہیں۔

نیپا کی مین بلڈنگ کی پیشانی ان سنہری الفاظ سے دمک رہی ہے ’’کسب کمال کن کہ عزیز جہاں شوی‘‘(کمال سیکھ کہ پوری دنیا کا محبوب بن جائے)۔تربیت حاصل کر کے جانے والوں کو اس امید کے ساتھ رخصت کیا جاتا ہے کہ اب آپ اپنی قوم کی خدمت کے جذبے سے سرشار جا رہے ہیں۔

سید سیف الرحمان پاکستان کے ان افسروں میں سے ہیں جو جہاں بھی جاتے ہیں داستاں چھوڑ آتے ہیں ۔جھاڑ جھنکار ، کاٹھ کباڑ کی جگہ سبزہ زار لے آتے ہیں ۔نیپا کے عملے کے اہل خانہ اور بچوں کیلئےاسپورٹس کمپلیکس بھی تیار ہو چکا ہے۔ رات کو یہ گراؤنڈ فلڈ لائٹ سے جگمگاتا ہے۔ آس پاس کے رہائشی ان روشنیوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔

مجھے سب سے زیادہ خوشی یہ دیکھ کرہوئی کہ کئی دہائیاں قدیم لائبریری کی ازسر نو تزئین کی جا رہی ہے۔ قالین فرنیچر آ چکے ہیں ،نئی الماریاں بھی پہنچ چکی ہیں، شیلفوں میں سجنے والی کتابیں جو ابھی ڈھیروں میں ہیںان کے نام مجھے پکارتے دکھائی دئیے۔ 50 /60 کی دہائی کی کتابیں بھی ہاتھ ہلا رہی ہیں۔افسروں کی تربیت کے بعد کی رپورٹیں بہت اہم دستاویزات ہیں۔

بہت جلد لائبریری جدید شکل میں سامنے آ جائے گی ۔ڈیجیٹل بھی ہو جائے گی۔ صرف افسروں کیلئے ہی نہیں طالب علموں کیلئے بھی بہت مفید ہوگی۔ نیشنل بک فاؤنڈیشن کتابوں کی ایک باقاعدہ بڑی دکان بھی قائم کر رہی ہے۔ حرف و دانش کا دور واپس آرہا ہے۔ایک گوشے میں ڈیجیٹل رابطہ مرکز قائم کیا گیا ہے جہاں سے افسران مختلف بین الاقوامی لائبریریوں اور تربیت گاہوں سے رابطہ قائم کر کے سوال جواب کر سکیں گے۔

تازہ ترین