بچپن میں جب مجھے پہلی مرتبہ سائیکل ملی تھی تو میری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا، مجھے یوں لگتا تھا کہ میں دنیا کے اُن چند خوش نصیبوں میں سے ایک ہوں جو اپنی ذاتی سواری کے مالک ہیں۔ اُن دنوں اسکول آنے جانےکیلئے میری ماں نے ہمارے لیے وین لگوائی ہوئی تھی، میں نے وین والے ’انکل‘ سے کہا کہ کاش مجھے سائیکل پر اسکول جانے کی اجازت مل جائے، اِس پر انکل نے جو جواب دیا وہ آج بھی مجھے یاد ہے: ’’جو بچے سائیکل پر اسکول جاتے ہیں اُن کی خواہش کہ وہ وین پر جائیں اور تم کہہ رہے ہو کہ تم نے سائیکل پر جانا ہے!‘‘ اسکول کے بعد کالج شروع ہو گیا، میٹرک میں اتفاق سے اچھے نمبر آ گئے تو والد صاحب نے مجھے موٹر سائیکل لے دی اور وہ بھی 125، جو اُس زمانے میں عیاشی کی معراج سمجھی جاتی تھی، پھر تو مجھے یوں لگا جیسے کسی خزانے کی کُنجی میرے ہاتھ لگ گئی ہو، دن رات میں اُس موٹر سائیکل کو اڑاتا پھرتا تھا۔ اُس موٹر سائیکل کے بعد چھوٹی سی گاڑی ملی، پھر بڑی گاڑی، پھر گاڑی بمع ڈرائیور...ہر مرحلے پر یوں لگتا تھا جیسے دنیا میں اِس سے بڑی خوشی پانا ممکن نہیں، مگر پھر کچھ عرصے بعد خوشی کی وہ سطح برقرار نہیں رہتی تھی اور میں ’نارمل‘ ہو جاتا تھا۔ جس بات کو میں نے سادہ الفاظ میں بیان کیا ہے، ماہرین نفسیات نے اِس کا ایک مشکل سا نام رکھا ہوا ہے، اسے وہ Hedonic Treadmill کہتے ہیں، اردو میں اِس کیلئے قریب ترین ترکیب لذت پرستی کی ٹریڈمل ہو سکتی ہے۔
ہیڈونک ٹریڈمل کا تصور بتاتا ہے کہ ہر انسان کی ایک ’’بیس لائن‘‘ ہوتی ہے اور جلد یا بدیر ہر انسان اُسی بنیادی سطح پر واپس آجاتا ہے جس سطح سے وہ خوشی کے مارے اوپر اٹھا ہوتا ہے یا کسی غم کی وجہ سے نیچے گرا ہوتا ہے۔ آپ لاٹری جیت لیں یا برسوں پرانے تعلق کا یکایک بریک اپ ہو جائے، وقت کے ساتھ آپ کی کیفیت دوبارہ اسی بنیادی سطح پر واپس آ جائے گی۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے آپ ٹریڈمل پر دوڑتے تو ہیں مگر اصل میں ایک بنیادی سطح پر ہی ٹھہرے رہتے ہیں۔ اصل میں ہم انسانوں کی خواہشات وقت کے ساتھ بڑھتی اور تبدیل ہوتی رہتی ہیں، جیسے ہی ایک خواہش پوری ہوتی ہے اُس کے ساتھ ہی دوسری جنم لے لیتی ہے بلکہ بعض اوقات تو اُس سے بھی پہلے۔ آپ ایک نیا مکان بنا لیں، اپنی مرضی کی نوکری حاصل کر لیں، اپنی پسند کی گاڑی خرید لیں، کچھ عرصے بعد آپ بہرحال نارمل ہو جائیں گے، بلکہ عین ممکن ہے کہ دوسروں کو دیکھ کر آپ کی خوشی کا گراف نیچے آ جائے کیونکہ ہم اپنا تقابل ہمعصروں کے ساتھ کرکے ناخوش ہوتے ہیں۔ آپ جیسا چاہے مکان بنا لیں، جیسی بھی گاڑی خرید لیں اور جتنی بھی اچھی نوکری تلاش کر لیں، دنیا میں اُس سے بھی اعلیٰ مکان، گاڑی اور نوکری رہے گی اور یوں یہ سلسلہ کبھی ختم نہیں ہو گا۔ فاسٹ فیشن انڈسٹری بھی انسان کی اسی نفسیات کو مدنظر رکھ کر کام کرتی ہے، ہر ہفتے نئے ڈیزائن، رعایتی قیمتیں، نام نہاد سیل۔ آج دنیا تباہی کے دہانے پر اِس فاسٹ فیشن کی وجہ سے ہے، ہم شاپنگ کرکے وقتی خوشی محسوس کرتے ہیں، کپڑوں کی ایک گٹھڑی بھر کر خرید لاتے ہیں، چند دنوں کیلئے خوش ہوتے ہیں اور پھر انسٹاگرام پر کوئی اور ڈیزائن پسند آ جاتا ہے اور ہم اُس کے پیچھے دوڑ پڑتے ہیں اور یہ نہیں جانتے کہ ایک سوتی قمیض یا جینز بنانے میں ہزاروں گیلن پانی استعمال ہوتا ہے، فاسٹ فیشن کی وجہ سے کپڑے بہت جلد ضائع کر دیے جاتے ہیں، ہر سیکنڈ میں ٹیکسٹائل کا ایک ٹرک یا تو جلایا جاتا ہے یا لینڈ فِل میں پھینک دیا جاتا ہے۔
دنیا میں محبت سے زیادہ کسی موضوع پر نہیں لکھا گیا، شاعری، آرٹ، مصوری، ڈرامہ، موسیقی، سب کچھ محبت کے گرد ہی گھومتا ہے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہیڈونک ٹریڈمل کا تصور محبت پر بھی لاگو ہوتا ہے؟ محبوب کو پا لینے کے بعد جو خوشی محسوس ہوتی ہے کیا وہ بھی وقتی ہوتی ہے اور کیا وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عاشق واپس اپنی بیس لائن پر آ جاتا ہے؟ مجھے لگتا ہے کہ اِس سوال کا جواب تلاش کرنا مشکل ہے، اگر کوئی کہے کہ وصل کی پہلی رات والی کیفیت بیس برس بعد بھی برقرار رہے گی تو یہ قرین قیاس نہیں ہوگا البتہ محبوب کی قربت خوشی کا باعث ضرور بنے گی۔ اوائل محبت میں عاشق اور محبوب جو معیار قائم کر دیتے ہیں (انگریزی میں اسے to set the bar کہتے ہیں) لا محالہ وہ معیار کچھ عرصے بعد نارمل ہو جاتا ہے کیونکہ ہر کھانے میں ایک دوسرے کو نوالے توڑ کر دینا ممکن نہیں رہتا مگر اِس خوشی کا گھر یا گاڑی جیسی مادی خوشی سے موازنا کرنا بھی مناسب نہیں، گاڑی آپ نئی بھی خرید سکتے ہیں، محبوب نیا تلاش کرنا آسان نہیں۔ اور پھر محبت میں ایک پچھتاوے کا پہلو بھی ہمیشہ رہتا ہے، نوکری چلی جائے تو اُس سے بہتر نوکری مل سکتی ہے، لیکن اگر محبوب چھِن جائے تو وہ پچھتاوا تا دیر پیچھا کرتا ہے۔ زندگی میں پچھتاوے کم سے کم ہونے چاہئیں۔
کیا ہیڈونک ٹریڈمل کا کوئی علاج بھی ہے؟ یک لفظی جواب ہے، نہیں۔ یہ لطیف نکتہ مہاتما بدھ نے اڑھائی ہزار سال پہلے سمجھا دیا تھا کہ زندگی میں دکھ اور بےسکونی لازمی ہیں چاہے وہ بڑھاپا ہو، بیماری ہو، جدائی ہو یا ناآسودہ خواہشات۔ اِس دکھ کا سبب جڑ ’’تَرشْنَا‘‘ یعنی خواہش اور لالچ ہے، انسان زیادہ مال و دولت، طاقت، محبت یا شہرت چاہتا ہے، مگر جب یہ چھن جائے یا محض اِس کے کھو جانے کا خوف ہی پیدا ہو جائے تو انسان کی خوشی کافور ہو جاتی ہے۔ انسان کی خواہشیں لامحدود ہیں، ایک پوری ہو تو دوسری پیدا ہو جاتی ہے، مہاتما بدھ کا کہنا تھا کہ اگر خواہش اور لالچ کو چھوڑ دیا جائے تو دکھ کا خاتمہ ممکن ہے، اِس کیفیت کو نروان کہا جاتا ہے جہاں سکون اور حقیقی خوشی حاصل ہوتی ہے۔ مصیبت یہ ہے کہ ’چھُٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی‘۔ مہاتما بدھ کا نروان کا تصور روحانیت سے کسی حد تک ملتا جلتا ہے، روحانیت میں بھی معرفت کا ایک مقام آتا ہے جہاں بندہ ہر مادی غیر مادی شے سے بیگانہ اور ماورا ہو جاتا ہے۔ جس طرف معرفت پانے کے طریقے ہیں اسی طرح نروان حاصل کرنے کے بھی اصول ہیں مگر یہ سفر بے حد کٹھن ہے اور عام انسانوںکیلئے یہ اِس قدر غیر متوقع ہو سکتا ہے کہ عین ممکن ہے کہ آخر میں سوائے ناامیدی اور مایوسی کے کچھ ہاتھ نہ آئے۔ بے شک انسان خسارے میں ہے۔