• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بونیر میں قیامت سے پہلے ہم نے قیامت صغریٰ دیکھی، مفتی فضل

کراچی (ٹی وی رپورٹ) جیوپروگرام ’’جرگہ‘‘ میں میزبا سلیم صافی سے گفتگو کرتے ہوئے امیر جے یو آئی (بونیر )مفتی فضل نے کہا کہ قیامت سے پہلے ہم نے قیامت صغری   دیکھی اور اب تک میں کئی نماز ِ جنازہ پڑھا چکا ہوں،سماجی کارکن وقاص خان نے بتایا کہ خواتین رضاکار شامل کی گئیں اور متاثرہ عورتوں کی کونسلنگ کی گئی ،مہندر پال سنگھ نے کہا کہ یہ مناظر کبھی نہیں بھول سکیں گے ،میزبان سلیم صافی نے تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب میں سیلاب نے میڈیا کی توجہ اپنی جانب کر لی ہے حالانکہ بونیر، شانگلہ، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کی بحالی ابھی مکمل نہیں ہوئی تھی۔ جے یو آئی بونیر کے مفتی فضل نے کہا کہ ہم نے قیامت صغریٰ دیکھی، کئی نماز جنازہ پڑھائے بچے درختوں سے لٹکتے اور لوگ ملبے تلے دیکھے بڑے چھوٹے کاروبار اور سکھ برادری بھی متاثر ہوئی ہے علاقے کو آفت زدہ قرار دیا جائے۔ مہندر پال سنگھ نے کہا کہ یہ مناظر کبھی نہیں بھول سکیں گے ۔ سماجی کارکن وقاص خان نے بتایا کہ خواتین رضاکار شامل کی گئیں اور متاثرہ عورتوں کی کونسلنگ کی گئی لیکن نیٹ ورک کا شدید مسئلہ ہے۔ صحافی شبیر بونیری کے مطابق پیر بابا میں دو سو سے زائد شہداء ہیں لوگ بے گھر ہیں اور سردی قریب ہے ۔ نمائندہ محبوب علی نے کہا کہ مینگورہ میں زندگی معمول پر نہیں آئی گھروں اور کاروباروں کی بحالی باقی ہے اور عوام حکومت کی طرف دیکھ رہے ہیں۔میزبان سلیم صافی نے کہا کہ بونیر ، شانگلہ ، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے بحالی کے کام پوری طرح مکمل نہیں ہوئے تھے کہ پورے پنجاب کو پانی نے آگہرا ہے اس لیے میڈیا کی توجہ بھی ساری پنجاب کی طرف مبذول ہوگئی ہے۔حالیہ سانحات نے نہ صرف سیاسی تقسیم ختم کی اس کے ساتھ ساتھ مذہبی تفریق بھی ختم ہوئی ہندو برداری بھی مدد میں پیش پیش رہی اور جہاں انہیں مدد کی ضرورت تھی وہاں مسلمانوں نے ان کی مدد کی ہے۔امیر جے یو آئی (بونیر )مفتی فضل نے کہا کہ قیامت سے پہلے ہم نے قیامت صغرا دیکھی اور اب تک میں کئی نماز ِ جنازہ پڑھا چکا ہوں ۔ کئی بچوں کو درختوں سے لٹکتا دیکھا ہے کئی لوگوں کو ملبے سے نکالا ہے اس چھوٹے سے عرصے میں بہت خوفناک مناظر دیکھ چکے ہیں اب بھی کئی لاپتہ ہیں۔پاکستان بھر سے جو لوگوں نے ڈونیشن دیئے میں ان کا تہہ دل سے مشکور ہوں۔مفتی تقی عثمانی اور قاری حنیف جالندھری کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے آس پاس کے قریبی اضلاع کو ہدایات جاری کیے کہ امداد کے لیے پہنچیں اور پہلے دن تقریباً چار ہزار رضا کار آگئے اور ہم نے ان کی مدد سے مل کر صفائی شروع کی۔چھوٹے کاروباری لوگوں کو ہم پیسے بھی دے رہے ہیں کہ وہ دوبارہ کاروبار شروع کرسکیں چھوٹے کاروباری حضرات کے لیے ہم اپنے تئیں کوششیں کر رہے ہیں لیکن جو بڑے کاروباری حضرات ہیں میں ڈونرز اور وفاقی صوبائی حکومت کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ بڑے کاروباری لوگوں کے نقصان کا ازالہ کیا جائے۔ بونیر کا ماربل کاروبار بہت متاثر ہوا ہے اور وہاں موجود سکھ برداری بھی متاثر ہوئی ہے اور جس طرح ہم نے مسلمانوں کیلئے کام کیا ہے اسی طرح ہم نے سکھ بھائیوں کیلئے بہت کام کیا ہے۔ این ڈی ایم اے اور پی ڈی ایم اے سے درخواست کروں گا ہیوی مشینری وہاں پہنچائی جائیں لوگ مشکلات میں ہیں ابھی تک لنکس روڈ بحال نہیں ہوسکے ہیں اور میں درخواست کروں گا اس پورے علاقے کو آفت زدہ قرار دیا جائے تاکہ یوٹیلیٹی بلز اور دوسرے واجبات معاف ہوجائیں۔یونائیٹڈ سکھ کے مہندر پال سنگھ نے کہا کہ وہاں کے مناظر بہت تکلیف اور دکھ بھرے مناظر تھے اور شاید ہم یہ زندگی بھر نہ بھول پائیں یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ پاکستان کے جھنڈے میں سبز رنگ کے ساتھ سفید رنگ بھی ہے اور ہم نے اسی طرح شانہ بشانہ کھڑے ہو کر اس مصیبت کا سامنا کر رہے ہیں اور پوری دنیا ہمارے اتحاد کو دیکھ رہی ہے تمام فلاحی اداروں کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔سماجی کارکن وقاص خان نے کہا کہ ہم نے اپنی رضاکاروں کی ٹیم میں عورتوں کو بھی شامل کیا ہماری ترجیح تھی کہ متاثرہ عورتوں کے خصوصی مسائل حل کرنے کے ساتھ ساتھ کونسلنگ وغیرہ بھی کی جائے ایک خاتون جن کے بچے بچیاں اور خاوند سب کا انتقال ہوگیا تھا ان کی کونسلنگ کی گئی اسی طرح کے بہت سے کیسز ہمارے سامنے آئے ۔وہاں نیٹورک کا بہت شدید مسئلہ ہے جبکہ یہاں اتنی بڑی بڑی کمپنیز ہیں وہ ایمرجنسی میں بھی ٹاور لگا سکتی ہیں۔بونیر سے مقامی صحافی شبیر بونیری نے بتایا کہ پیر بابا کے علاقے میں تقریباً 174 شہدا ء ہیں جبکہ ڈی سی آفس کے مطابق 236 شہدا ء ہیں اور بارہ مسنگ ہیں میں فرداً فرداً تمام متاثرین سے ملا ہوں اور ان سب نے بڑے مسئلے کی نشاندہی کرتے ہوئے گھر تباہ ہوجانے کی شکایت کی ہے اور سردی یہاں آنے والی ہے اور گھر نہیں رہے ہیں ۔حکومت نے شہداء کو بیس بیس لاکھ کے چیکس دئیے ہیں میں سمجھتا ہوں حکومت کے پاس وسائل بہت زیادہ ہیں اگر حکومت چاہتی تو ملبہ ٹھکانے لگا سکتی تھی۔ سوات سے نمائندہ خصوصی جیو نیوز محبوب علی نے کہا کہ مینگورہ میں زندگی ابھی تک معمول پر نہیں آئی ہے اور بڑی وجہ سیلابی ملبے سے جو گھر متاثر ہوئے تھے ابھی تک بحالی نہیں ہوسکی ہے۔گیس بجلی تقریباً تمام علاقوں میں بحال ہوگئی ہے۔لوگوں کا گھر اور کاروبار سب تباہ ہوچکا ہے اور وہ حکومت کی طرف دیکھ رہے ہیں۔

اہم خبریں سے مزید