• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بھارت، دو بھائیوں سے ایک خاتون کی مشترکہ شادی کا مقصد کیا ہے؟

کراچی (اسد ابن حسن ,نیوز ڈیسک) بھارت میں گزشتہ دونوں ایک خاتون کی دو بھائیوں سے شادی کی دھوم ہوئی تاہم دو بھائیوں سے ایک خاتون کی مشترکہ شادی کا مقصد کیا ہے ؟ شمالی بھارت میں ’جوڑی دارا‘ رسم کی انوکھی روایت آج بھی قائم ہے جس میں ایک خاتون بیک وقت کئی بھائیوں سے شادی کرتی ہے تاکہ خاندان متحد رہے اور زمین کے حصے نہ ہوں۔اس روایت کو ہندو کتاب ’مہابھارت‘ سے جوڑا جاتا ہے جس میں پنچال کی بیٹی دروپدی نے پانچ بھائیوں سے شادی کی تھی جنہیں پانڈو کہا جاتا ہے۔ ہاٹی برادری خود کو انہی پانڈو کا وارث مانتی ہے، اسی لیے اس روایت دروپدی بیاہ یا پانڈو پراتھا بھی کہا جاتا ہے۔ تاہم اس رشتے میں مشکلات بھی ہیں ایک 60سالہ خاتون نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ خاندانی دباؤ اور مجبور تھی ، 2شوہروں کو خوش رکھنا مشکل ہوتا ہے، کس کا خیال رکھوں ، کس کا نہیں ؟ تفصیلات کے مطابق برطانوی ویب سائٹ کے مطابق گزشتہ ماہ انڈین ہمالیہ کی بلندیوں پر واقع ایک پرسکون گاؤں میں تین دن تک اس وقت لوک گیتوں اور ڈھول کی تھاپ گونجتی رہی جب سیکڑوں لوگ ایک انوکھی شادی کی خوشی منانے کے لیے اکٹھے ہوئے۔ لیکن ہماچل پردیش کے ضلع شلائی کے اس گاؤں میں زیادہ تر لوگوں اور بعد میں قومی سطح پر ملنے والی توجہ کی وجہ یہ تھی کہ سنیتا چوہان نامی خاتون کی شادی ایک نہیں بلکہ دو بھائیوں پردیپ اور کپل نیگی سے ہو رہی تھی۔ 12 جولائی کو ہونے والی شادی’جوڈی دارا‘ رسم کے تحت ادا کی گئیں جو ہاٹی قبیلے کی ایک انوکھی روایت ہے جس میں ایک خاتون بیک وقت کئی بھائیوں سے شادی کرتی ہے تاکہ خاندان متحد رہے اور زمین کے حصے نہ ہوں۔ شلائی کے رہائشی 55 سالہ رگھوبیر تومر نے کہا: ’یہ صدیوں پرانی روایت ہے، اس وقت کی جب یہاں کے لوگ پہلی بار آباد ہوئے۔ تب نہ سڑکیں تھیں نہ ذرائع آمد و رفت۔ سب سے نزدیک شہر 70 کلومیٹر دور تھا۔ قحط سالی نے ہی سب کچھ طے کیا کہ شادیاں کیسے ہوں گی، زندگی کیسے گزرے گی۔‘ انڈیا میں عموماً شادی شدہ بیٹے والدین کے ساتھ رہتے ہیں۔ قانون کے مطابق بیٹیوں کو بھی وراثت کا حق حاصل ہے لیکن عموماً زمین بیٹوں کو ملتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ زیادہ جوڑوں کا مطلب زیادہ زمین کی تقسیم اور تنازعات ہو سکتے ہیں۔ شلائی جیسے پہاڑی علاقوں میں زمین کم اور مہنگی ہے۔ ایسے میں ’جوڑی دارا‘ روایت ایک عملی حل کے طور پر سامنے آتی ہے۔ رگھوبیر تومر کے مطابق: ’اگر بھائی ایک ہی عورت سے شادی کریں تو زمین تقسیم نہیں ہوتی، خاندان متحد رہتا ہے۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ چار پانچ بھائی ایک ہی عورت سے شادی کرتے ہیں۔‘ اس روایت کو ہندو کتاب ’مہابھارت‘ سے جوڑا جاتا ہے جس میں پنچال کی بیٹی دروپدی نے پانچ بھائیوں سے شادی کی تھی جنہیں پانڈو کہا جاتا ہے۔ ہاٹی برادری خود کو انہی پانڈو کا وارث مانتی ہے، اسی لیے اس روایت دروپدی بیاہ یا پانڈو پراتھا بھی کہا جاتا ہے۔ رگھوبیر تومر کے والد کی شادی بھی اسی روایت کے تحت ہوئی تھی۔ ’میری ایک ہی ماں اور دو والد تھے۔ ہم انہیں بڑے بابا اور چھوٹے بابا کہتے تھے۔ حقیقی باپ کا تصور نہیں تھا، سب ایک ہی خاندان تھے۔‘ تومر کا کہنا ہے کہ اب بھی شلائی میں 30 سے 40 گھرانے اس روایت پر عمل کرتے ہیں لیکن سوشل میڈیا نے اسے خبروں میں لا کھڑا کیا ہے۔ سنیتا کا کہنا کہ انہوں نے دونوں بھائیوں سے شادی اپنی مرضی سے کی ہے اور یہ ایک ایسے پہلو کو بھی ظاہر کرتا ہے کہ اکثر اوقات اس روایت میں خاندان کا دباؤ بھی موجود رہتا ہے جیسا کہ ملک میں کئی دوسری روایتی شادیوں میں ہوتا ہے۔شلائی کے ایک چائے خانے میں زیادہ تر مرد بیٹھے تھے، جو ’جوڑی دارا‘ روایت کی ممکنہ خامیوں پر بات کرنے سے کتراتے رہے لیکن بھیڑ سے دور، ایک 60 سالہ خاتون نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ کیسے ان کی شادی ان کی مرضی کے خلاف دو بھائیوں سے کر دی گئی تھی۔ انہوں نے کہا: ’میرا شوہر سات بھائیوں میں سے ایک تھا۔ شادی کے بعد جب میں یہاں آئی تو یہ بات چلی کہ کیا واقعی سات بیٹوں کے لیے سات بہوئیں چاہئیں؟ اگر ایسا ہوا تو گھر سات حصوں میں بٹ جائے گا۔ تو مجھ سے کہا گیا کہ شوہر تو تمہارا ایک ہی ہے لیکن دوسرے بھائی کو بھی قبول کرنا ہوگا ورنہ زمین تقسیم ہو جائے گی۔‘ انہوں نے کہا کہ اگرچہ ان کی شادی ایک شخص سے ہوئی تھی لیکن انہیں ’مجبور کر کے دوسرا بھائی بھی قبول کرنے کو کہا گیا اور یہ کہ انہیں اس بھائی کا بھی خیال رکھنا ہے، جو دوہرا ’جنسی تعلق‘ قائم کرنے کیلئے ایک اشارہ تھا۔ انہوں نے کہا: ’بیٹا، اس وقت ایسا ہی تھا، ہم مجبور تھے۔ کہا گیا یا تو روایت مانو یا واپس جاؤ۔ میں ان پڑھ تھی، اس لیے جو کہا گیا مان لیا۔‘ انہوں نے پھر وضاحت کی، ’نہیں، یہ زبردستی نہیں، بس دباؤ تھا۔‘ خاتون نے کہا کہ ان کے اپنے والدین نے بھی اس پر سوال نہیں اٹھایا۔ لیکن وہ سمجھ نہیں پاتیں کہ آج کی پڑھی لکھی لڑکیاں کیوں اس روایت میں شامل ہو رہی ہیں۔ ’یہ روایت کم ہو رہی ہے اور وہ لڑکی پڑھی لکھی ہے، تو اس پر کیا دباؤ تھا؟‘ جب ان سے مشکلات کے بارے میں پوچھا گیا تو وہ زیادہ نہیں بولیں۔ ’چھوڑو، یہ پرانی باتیں ہیں۔ ذمہ داری بہت ہوتی ہے، دو شوہروں کو خوش رکھنا آسان نہیں۔ کس کا خیال رکھو، کس کا نہیں؟
اہم خبریں سے مزید