کراچی (اسٹاف رپورٹر) انسداد دہشتگردی منتظم عدالت میں ٹاؤن چیئرمین فرحان غنی و دیگر کے خلاف سرکاری ملازمین پر تشدد اور دھمکانے کے مقدمے کی سماعت ہوئی۔ سماعت کے دوران تفتیشی افسر نے ملزمان کی رہائی سے متعلق رپورٹ عدالت میں جمع کرائی۔ رپورٹ میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ مدعی مقدمہ کھدائی کے کام سے متعلق کوئی این او سی پیش نہ کرسکا اور نہ ہی اپنی شناخت کسی سرکاری محکمے کے ملازم کے طور پر ظاہر کی۔ تفتیشی افسر کے مطابق جائے وقوعہ کی سی سی ٹی وی فوٹیجز حاصل کرنے کی کوشش کی گئی مگر کامیابی نہ ملی، مقدمے میں اسلحے کے استعمال کے بھی شواہد نہیں ملے۔ مزید بتایا گیا کہ مدعی مقدمہ نے تھانے میں بیان دیا کہ وہ کیس کی مزید کارروائی نہیں چاہتا، جس بنا پر ملزمان کو عدم ثبوت کے باعث رہا کردیا گیا۔ عدالت نے درخواست پر مدعی مقدمہ اور پراسیکیوشن کو نوٹس جاری کرکے جواب طلب کرنے کی ہدایت کی تاہم وکیل صفائی وقار عالم عباسی نے کہا کہ مدعی مقدمہ کے وکیل اور پراسیکیوٹر موجود ہیں، نوٹس کئے بغیر سماعت کی جاسکتی ہے۔ عدالت نے کہا کہ درخواست کے میرٹ کا جائزہ لیا جائیگا کہ آیا تفتیشی افسر کا اقدام درست تھا یا نہیں۔ عدالت نے کہا کہ دیکھنا ہوگا کہ جس قانون کے تحت رہائی دی گئی وہ اس کیس میں لاگو بھی ہوتا ہے یا نہیں۔ عدالت نے تفتیشی افسر سے استفسار کیا کہ کیا ملزمان سے مچلکے لئے گئے یا انہیں ایسے ہی چھوڑ دیا گیا؟ جس پر تفتیشی افسر نے بتایا کہ دس لاکھ روپے کے مچلکے لئے گئے ہیں۔ عدالت نے مچلکوں کے دستاویز کا جائزہ لیکر کہا کہ دستاویز میں لکھا ہے کہ ضامن ملزمان کو سماعت کے موقع پر پیش کریگا، بتایا جائے ملزمان کہاں ہیں اور کیوں پیش نہیں ہوئے؟ وکیل صفائی نے کہا کہ تھانے سے رہائی کے موقع پر بھی شہریوں کی بڑی تعداد جمع ہوگئی تھی، ابھی بھی ٹاؤن چیئرمین کے گھر کے باہر لوگ موجود ہیں، ایسی صورتحال میں امن و امان کے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔عدالت نے اظہار برہمی کرتے ہوئے ریمارکس میں کہا کہ ملزمان کہاں ہیں؟ کیوں پیش نہیں کیا گیا؟عدالت نے تفتیشی افسر پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر ضامن نے ملزمان کو پیش نہیں کیا تھا تو ضمانت ضبط ہونی چاہئے تھی، تفتیشی افسر کو اگر قانون معلوم ہوتا تو اب تک ضمانت ضبط ہوچکی ہوتی۔ عدالت نے پولیس رپورٹ پر ملزمان، ضامن اور مدعی مقدمہ کو نوٹس جاری کرتے ہوئے آئندہ سماعت پر 2 ستمبر کو طلب کرلیا۔