• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بے شک اس وقت بھارت کی آبی جارحیت کا ذکر ہو رہا ہے لیکن عالمی منظر نامہ اتنی تیزی سے بدل رہا ہے کہ اگر ہمارے قائدین نے پاکستان کے ہر موسم کے دوست چین کے کہنے پر بھارت کے موجودہ وزیر اعظم سے "مصافحہ" کرلیا تو بہت کچھ بدل بھی سکتا ہے یہ اور بات کہ پاکستان کو اپنی آنکھ کو ہی اور چوکس رکھنا ہوگا اورہندوستان میں عربوں، ایرانیوں یا منگولوں کے ساتھ آنے والے کمان گربھی یاد رکھنے ہوں گے جوتیروں کو زہر یا آگ سے زیادہ اپنی قوت سے راکٹ بنا سکتے تھے اور یہ محض اساطیر نہیں گیارہ،بارہ سو سال کی تاریخ کے ورق بہت کچھ جانتے ہیں،پھر وہ صوفی،درویش بھی آئےجن کے پیالے میں کوئی دلت یا شودر بھی پانی پی سکتا تھا اور خود کو "برہمن" خیال کرنے والا بھی ،وہ فخر سے کہتے تھے کہ ہم جولاہے ہیں،موچی ہیں،گھوڑوں کے نعل بند ہیں،آج دنیا میں ہنر مندوں کی قدر ہے مسلمانوں کے مدرسے وہ تھے جہاں گداگروں کی کھیپ پیدا نہیں ہوتی تھی بلکہ کمان گر،کاشی گر،طبیب،مرہم بنانے والے اور معمار بھی ہوتے تھے،میں یہاں ملتان کے قدیم محلوں کے نام گنوانے لگوں تو پھر کوچہ و بازار کے معانی اور کھل جائیں گے۔ بہر طور آج تو مجھے آج سے سترہ،اٹھارہ سال پہلے لاہور میں ہونے والا ایک کنونشن یاد ہےجس میں ہم سب مہمان بھی تھے اور میزبان بھی،بے نظیر کی شہادت کے بعد ان کی جماعت کی فکری بنیاد کو اپنی دانست میں تقویت دینے کے لئے کہ پاکستان میں کوئی ایسا فورم جو بی بی کے قاتلوں کے دئیے زخموں پر مرہم رکھ سکے۔ بیشتر شرکا نے " مرد حق" کے دور میں تبادلے،بے روزگاری، وارنٹ گرفتاری سے زیادہ "وطن دشمنی" کی تہمت سہی تھی اس لئےعوام کے احساس شرکت کی واپسی اور اپنے وطن میں ہی رہ کر نئی نسل کو آنے والے اچھے دنوں کی امید دلانا ہم سب کا مشن تھا،بہت تقاریر ہوئیں کچھ لوگوں نے نئی پارٹی کا نام بھی تجویز کر دیا،ایک سب کمیٹی بھی بن گئی جس نے اس جماعت کا منشور تیار کرنا تھا مگر دو ایک کڑوے لوگ بھی تھے جو کہتےتھے اگربیس پچیس "غیر سرکاری انجمنیں" مل کر سیاسی پارٹی بنا سکتیں تو جنرل مشرف کے دورمیں ہمارے پیارے عمر اصغر خان بنا چکے ہوتے جنہیں پنجاب یونیورسٹی سے نکال دیا گیا تھا،جن کا ساتھ قائد اعظم یونیورسٹی سے نکالے گئے بلکہ ملتان سنٹرل جیل کی سلاخوں کے پیچھے کئی سال رہنے والے جمیل عمر دے رہے تھے ،پھر ایسا ہوا کہ اردو، انگریزی، پنجابی میں شعر کہنے والے حارث خلیق کی سمجھ میں بہت کچھ آ گیا کہ "کمی کمینوں" کے لئے پرسوز شاعری کرنا اوربات ہے اوربائیں بازو کے"انا پرست" لوگوں میں بیٹھ کر جماعت یا فورم بنانا اور شے ہے۔ مجھے اس موقع پر ہمیشہ غالب یاد آتا ہے

چاک مت کر جیب بے ایام گل ۔۔۔۔ کچھ ادھر کا بھی اشارہ چاہیے ۔

حارث خلیق انسانی حقوق کمیشن سے وابستہ ہوگئے،وہ پاکستان میں بولی جانے والی "درد کی زبان" میں لکھی شاعری اور اپیلیں پڑھ سکتے ہیں،وہ جانتے ہیں لاہور کے شاہی قلعے میں کس کس پر کیا تشدد روا رکھا گیا۔ انہوں نے اپنے دوست امتیاز علی خان کی اسیری اور دو برس اسی تاریخی عمارت میں ہونے والے سلوک پر ایک نظم کہی تھی "زخم اور پھول" جس کے سارے مصرعے میں لکھ نہیں سکتا کہ بے شک امتیاز علی خان اب لندن میں مقیم ہیں مگر میں تو ملتان میں ہوں۔

کھنچ گئے جتنے میرے ناخن تھے

برف کی سل پہ بھی لٹایا مجھے

زخم تھے اور بہت زیادہ زخم

خون بہہ بہہ کے خشک،آنکھیں نم

جب بہار آئے گی تو دیکھو گے

زخم یہ پھول بن کے مہکیں گے

٭٭٭٭

آج کل امریکہ سے آئی ایک خاتون کا چرچا ہے جو ایک قیدی کے لئے ہر برس کی طرح کچھ کتابیں لائی ہیں،ساتھ ہی ڈاکٹرثانیہ نشتر کے ساتھ، ڈاکٹر یاسمین راشد کے بھی خطوط کا ذکر ہو رہا ہے اوریوں امید اور ناامیدی کے ملاپ سے ایک تیز ریلا ہے جوہماری طرف بڑھ رہا ہے جس کے بارے میں ہم جیسے بے خبروں کو بتایا جا رہا ہے کہ جھنگ، پاکپتن،قصوراور ملتان کے بہت سے درباروں کے دریا برد ہونے کےبعد ایک ضدی رہنما کو شایدایک دو برس کے لئے تیار کر لیا جائے گا کہ وہ لیڈی ڈیانا کے دیس میں یا اپنی خاتون اول کے دیس میں چلے جائیں۔۔ امید ہے کہ خان اعظم کے لئے جو کتابیں آئی ہیں ان میں لاہور میں مقیم انگریزی کے نوے برس کے سدا بہار استاد سید رضی عابدی کی کتب بھی ہوں گی "تیسری دنیا کا ادب" اور "اچھوت لوگوں کا ادب"،جن میں یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ خود کو بھگوان یا اس کا اوتار خیال کرنے والو! کبھی سوچو تو"دلت" کون ہیں ؟ٹھکرائے ہوئے لوگ ! عابدی صاحب نے ڈاکٹر مبارک علی کے ساتھ مل کر ایک نظم ’ماں‘کا ترجمہ کیا ہے

اگر اس کی لکڑیاں نہ بکتیں تو ہم بھوکے سو جاتے

ایک بڑے سے سانپ نے اسے ڈس لیاتھا

دن گزرا اور ساتھ ہی وہ بھی گزر گئی

جب مجھے کوئی کمزور سی لکڑیاں بیچنے والی نظر آتی ہے

تو میں اس کی لکڑیاں خرید لیتا ہوں

٭٭٭٭

سیلاب کی زد میں آئے ہوئے کنبوں کیلئے بچوں کے سرکاری اسکولوں کو کیمپ قرار دیا گیا ہے،عام طور پر پناہ گزیں دکھیاروں کو بہت کچھ سمجھایا نہیں جا سکتا مگر ان کنبوں کی خواتین کو یہ تو بتایا جا سکتا ہے کہ ہر بچے کو اپنا اسکول بھی ماں کی طرح پیارا ہوتا ہے کوشش کریں ان اسکولوں کو صاف ستھرا رکھیں،بچوں کے دکھ نہ بڑھائیں نہ ان کے استادوں یا استانیوں کے،اپنے قیام سے۔

تازہ ترین