• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

رحمتِ عالم ﷺ کا غیر مسلموں اور بدترین دشمنوں سے عفو درگزر اور حُسن سلوک

’’عفو‘‘ کے معنیٰ ہیں معاف کرنا،درگزرکرنا۔فقیہ ابو اللّیث سمر قندیؒ عفو کے معنی بیان کرتے ہیں: جان لوکہ عفو کی حقیقت یہ ہے کہ آدمی ایک حق کا مستحق بن کر اسے حاصل کرنے کی طاقت رکھتے ہوئے محض اللہ کے لئے اسے چھوڑ دے اور معاف کردے۔(احیاء علوم الدین۳/۸۲ القول فی معنی الحقد ونتائجہ وفضیلتہ العفو والرفق)

عفو بہت اونچی صفت ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے بندوں کو عفوودرگزر کی تعلیم دی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا رشاد ہے۔’’معاف کرو اور بھلائی کا حکم کرواور نادانوں سے اعراض کرو۔(سورۂ اعراف۱۹۹) اس آیت میں لوگوں کے ساتھ شفقت کی تعلیم اور جاہلوں کے ساتھ حلم کرنے کی تعلیم ہے۔ حضرت جعفر صادقؓ کا ارشاد ہے کہ اس سے زیادہ کوئی آیت اخلاق کی جامع نہیں۔( بیان القرآن) ایک جگہ فرمایا:معاف کردینا تقویٰ سے زیادہ قریب ہے۔(سورۂ بقرہ ۲۳۷)

اللہ تعالیٰ کے معزز بندے:۔ حضرت موسیٰؑ نے ایک مرتبہ اللہ تعالیٰ سے عرض کیا: میرے رب! بندوں میں تیرے نزدیک معزز کون ہے؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:جومعاف کردے۔ (احیاء العلوم ۳/۱۸۲) حضرت ابوالدرداءؓ سے پوچھا گیا کہ لوگوں میں سب سے زیادہ معزز کون ہے؟توفرمایا:وہ بندہ جو قدرت ہوتے ہوئے معاف کردے،پس تم معاف کیا کرو، اللہ تمہیں معزز بنادے گا۔(احیاء العلوم ۳/۱۸۲)

حضرت عقبہ ؓ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں حضور ﷺسے ملا، آپ ﷺنے میرا ہاتھ پکڑا اور کہا:عقبہ! اہل دنیا اور آخرت کے بہترین اخلاق تمہیں نہ بتاؤں؟ جو تم سے تعلق توڑے تم اس سے تعلق جوڑو ،جو تمہیں محروم کرے ،تم اسے عطا کرو، جو تمہارے اوپر ظلم کرے، تم اسے معاف کردو۔(مستدرک حاکم رقم ۷۲۸۵ کتاب البرو الصلہ،کنز العمال رقم ۸۶۹۴ صلتہ الرحم)

عفوودرگزر اللہ تعالیٰ کی صفت ہے: عفوودرگزر اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی صفت ہے، اللہ تعالیٰ کے خاص ناموں میں ’’عَفُوٌّ‘‘(معاف کرنے والا) غفور اور غفار(معاف کرنے والا) ہے۔اللہ تعالیٰ کی شان یہ ہے: اور وہی ہے جو اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور برائیوں کو معاف کرتا ہے۔ وہ اپنے گنہگار بندوں کواپنی شان غفار کا اس طرح یقین دلا رہا ہے۔(سورۂ شوری۳۰)اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:اور بےشک میں بڑا بخشنے والاہوں، اسےجوتوبہ کرے اور ایمان لائے اور نیک کام کرے پھرراہ پر رہے۔(سورۂ طٰہٰ۴)

قرآن کریم میں بے شمار جگہوں پر اللہ تعالیٰ نے اپنی صفت عفوو مغفرت کا ذکر کیا ہے۔اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں صفت عفود یکھنا چاہتے ہیں کہ میرے بندو! جس طرح تمہارا خالق ومالک عفوودرگزرکرتا ہے، تمہیں بھی اس صفت سے متصف ہونا چاہئے،چنانچہ فرمایا:یا کسی برائی کو معاف کرو توبےشک اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا، قدرت والا ہے۔(سورۂ نساء۲۱)

انسان اگر اپنے کسی قصور وار کو معاف کرتا ہے تو اس کی قدرت بہر حال کامل نہیں، لیکن اللہ تعالیٰ جس کی قدرت کے سامنے کسی کو دم مارنے کی مجال نہیں، جب وہ معاف فرماتا ہے تولاچار انسان کو اپنے قصور واروں کو معاف کرنا کتنازیبا اور سزاوار ہے۔

قرآنِ کریم میں اسلوبِ عفو :۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:اورچاہئے کہ وہ معاف کردیں اور درگزر کریں کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تمہیں معاف کرے اور اللہ معاف کرنے والا رحم کرنے والا ہے۔(سورۂ نور۳)اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے کتنے عمدہ اور دل نشین انداز میں بندوں کو عفوودرگزر کی تعلیم دی ہے کہ تم میں کون ہے جس سے دنیا میں قصور نہیں ہوتے، ہر متنفس اللہ کا قصوروار ہے، جب تم اللہ تعالیٰ کے قصوروار ٹھہرے تو کیا تم یہ نہیں چاہتے کہ اللہ تمہیں معاف کرے، جب ایسی بات ہے تو تم بھی اپنے قصورواروں کو معاف کیا کرو، درگزرکیا کرو، غصے میں اپنے آپ پر قابورکھا کر تو اللہ تعالیٰ بھی تمہارے قصوروں کو معاف کردے گا۔

جب انسان کی عزت وآبروپر حملہ ہوتو یہ غم وغصہ کے اظہار کا اصل موقع ہوتا ہے، لیکن اس حالت میں بھی اسلام نے عفوودرگزر سے کام لینے کی تعلیم دی ہے۔عفوودرگزر ایسی صفت ہے جو حضور اکرم ﷺکی پوری حیاتِ طیبہ میں نمایاں نظر آتی ہے۔

تئیس سالہ دور نبوت میں آپ ﷺپر کس کس طرح کے حالات پیش آئے، آپ ﷺکے ساتھ کس کس طرح کی سازشیں کی گئیں، لیکن باوجود بایں ہمہ پوری زندگی میں کوئی ایک واقعہ نہیں مل سکتا کہ آپ ﷺنے کسی سے اپنا ذاتی انتقام لیا ہو۔

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے جب حنین کا مال غنیمت تقسیم کیا تو کچھ لوگوں کو آپ ﷺنے(تالیف قلب کے لئے) زیادہ دیا، اقرع بن حابس کو سواونٹ دئیے،حضرت عیینہ بن حصن کوبھی اتنے ہی دیئے اور بھی کچھ لوگوں کو دئیے تو اس پر ایک آدمی نے کہا: اس تقسیم میں اللہ کی رضا مقصود نہیں رہی، آپ ﷺنے اپنی مرضی سے قریش کے لوگوں کودیا اور ہم کو محروم رکھا۔جب حضور ﷺتک یہ بات پہنچی تو آپ ﷺنے فرمایا:اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ ؑپر رحم کرے، جنہیں اس سے بھی زیادہ ستایا گیا،لیکن انہوں نے صبر کیا۔(میں بھی صبر کروں گا)۔( بخاری شریف رقم ۴۰۸۱ باب غزوۃ الطائف عن عبد اللہؓ)

حضرت ابو سعیدؓفرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم لوگ حضورﷺکے پاس موجود تھے،آپ ﷺلوگوں میں کوئی چیز تقسیم فرمارہے تھے کہ اتنے میں بنو تمیم کا ایک آدمی ذوالخویصرہ آیا اور اس نے کہا: یارسول اللہ( ﷺ) انصاف سے تقسیم فرمائیں۔ آپ ﷺنے اس کی بات برداشت کرلی اور فرمایا: اگرمیں انصاف نہیں کروں گا تو کون انصاف کرے گا۔ میں خسارےمیں رہوں گا، اگر میں نے انصاف نہ کیا۔حضرت عمرؓ نے عرض کیا یارسول اللہﷺ! مجھے اجازت دیں، میں اس کی گردن اڑادوں۔ حضور ﷺنے فرمایا: نہیں اسے چھوڑدو۔( سنن النسائی الکبریٰ رقم ۸۵۶۰ عن ابی سعید الخدری)

جس زمانے میں آپﷺ فتح مکہ کی تیاریاں کررہے تھے، اس بات کی خاص احتیاط فرمارہے تھے کہ قریش کو ہمارے ارادوں کی خبر نہ ہو، حاطب بن بَلتعَہ ایک صحابی تھے انہوں نے چاہا کہ قریش کو اس کی اطلاع کردوں، چنانچہ ایک خط لکھ کر انہوں نے چپکے سے ایک عورت کی معرفت مکہ روانہ کیا۔ 

آپ ﷺکو اس کی خبر ہوگئی، حضرت علیؓ، حضرت زبیرؓ اسی وقت بھیجے گئے جو قاصد کو مع خط کے گرفتار کر لائے، حاطب کو بلاکر دریافت کیا تو انہوں نے صاف صاف اپنے قصور کا اعتراف کیا اور معذرت چاہی۔یہ موقع تھا کہ ہربا اختیار فرد مجرم کی سزا کا فتویٰ دیتا، لیکن آنحضرت ﷺنے اس لئے ان کو معاف فرمایا کہ وہ شرکائے بدر میں تھے، عورت جو اس جرم میں شریک تھی ،اس سے بھی کسی قسم کا تعرض نہیں فرمایا،حالانکہ یہ خط اگر دشمنوں تک پہنچ جاتا تو مسلمانوں کو سخت خطرات کا سامنا ہوتا۔( سیرۃ النبیؐ بحوالہ بخاری فتح مکہ)

عفوودر گزر کا اعلیٰ نمونہ:۔ ایک مرتبہ ایک دیہاتی حضور ﷺکی خدمت میں آیا اور اس نے آپﷺ کی چادر اس زور سے پکڑ کر کھینچی کہ آپﷺ کی گردن پر نشان پڑگئے، پھر کہنے لگا کہ میرے یہ اونٹ غلّہ سے لاددو،تمہارے پاس جو مال ہے، وہ نہ تمہارا ہے، نہ تمہارے والد کا ہے(نعوذبااللہ)یہ سب سن کر آپ ﷺنے صرف اتنا کہا: مال اللہ کا ہے اور میں اس کا بند ہ ہوں، جو میرے ساتھ حرکت کی اس کابدلہ لیا جائے گا۔ دیہاتی نے کہا: بالکل نہیں۔آپ ﷺنے فرمایا:کیوں؟ تو وہ کہنے لگا: اس لئے کہ آپؐ برائی کا بدلہ برائی سے نہیں دیتے۔ حضور ﷺاس کی بات پر مسکرائے، پھر آپ ﷺنے ایک اونٹ پر جو اوردوسرے پر کھجوریں لاددیں۔(الشفاء بتعریف حقوق المصطفیٰ۱/۱۰۸۔ابوداؤد شریف رقم الحدیث ۴۷۷۵)

غیر مسلموں کے ساتھ آپﷺ کا حسنِ سلوک:۔ آپﷺ کی ذات کو اللہ تعالیٰ نے رحمۃ للعالمین بناکر بھیجا ،آپ کی رحمت اپنوں اور پرایوں سب پر عام تھی، ہمیشہ ہر ایک کے ساتھ حسن سلوک کابرتاؤ کیا، کبھی کسی سے ذاتی انتقام نہیں لیا، کفارومشرکین کے ساتھ حسن سلوک اور عفوودرگزر کے بے شمار واقعات سیرتِ طیبہ میں ملتے ہیں، نمونے کے طورپر چند واقعات درج ذیل ہیں۔

طائف والوں کے ساتھ عفوودرگزر:۔ حضرت عائشہؓ نے ایک مرتبہ حضور ﷺ سے عرض کیا: اللہ کے نبیﷺ! کیا اُحد سے بھی زیادہ سخت دن آپﷺ پر کوئی آیا ہے؟آپ ﷺنے فرمایا! ہاں ان لوگو ں سے مجھے سب سے زیادہ جو تکلیف پہنچی، وہ عقبہ والا دن ہے، جب میں نے اپنے آپ کو طائف میں ابن عبد یا لیل پر پیش کیا (ان کی ساری تکلیفیں سہہ کر) میں اداس چہرے کے ساتھ لوٹا، جب قرن الثعالب پر پہنچا تو ایک بدلی دیکھی تو میں نے یکایک جبرائیلؑ کو دیکھا جو مجھے کہہ رہے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی بات اور آپ کی قوم کی آپ کے ساتھ حرکات دیکھی اور اللہ تعالیٰ نے آپ کے پاس پہاڑوں کے فرشتے کو بھیجا ہے، آپ حکم دیں۔

پس ملک الجبال میرے سامنے آگئے اور سلام کیا اور کہا: اے محمد ﷺ! اللہ تعالیٰ نے آپ کی بات سنی جو آپ کی قوم کے ساتھ ہوئی اور ان کی حرکات دیکھی اور مجھے آپ کے پاس بھیجا ہے آپ مجھے حکم دیں جو چاہیں۔ اگر آپ چاہیں تو دو پہاڑوں کو ان پر ملادوں اور بیچ میں ان کوپیس دوں۔رحمت عالم ﷺ نے فرمایا:نہیں! مجھے امید ہے کہ اللہ ان کی نسلوں میں ایسے لوگ پیدا کریں گے جو ایک اللہ کے پرستار ہوں گے، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گے۔(بخاری شریف رقم ۳۲۳۱ عن عائشہ، مسلم شریف رقم ۴۷۵۴)

رحمۃ للعالمینﷺ کے الطاف وعنایات عام تھے، دوست و دشمن کی تمیز مفقود تھی، یہود و نصاریٰ اور منافقین کے ساتھ بھی آپ ﷺنے وہ سلوک وبرتاؤ کیا، جس کی مثال انسانی تاریخ میں نہیں مل سکتی۔