موجودہ ماحول تکلیف اور اذیت سے اس قدر بوجھل ہے کہ اس گھٹن سے راہ فرار اختیار کرنے کی بے تابی انسان کو گھائل کیے دیتی ہے ۔ یہ سوچ ایک اور خواہش کی عکاسی کرتی ہے جنکی فہرست ادھورے، نامکمل رہ جانے والے کاموں کے انبار میں مزید طویل ہوتی جا رہی ہے ۔لیکن امید کو زندہ رہنا چاہیے ۔ جس طرح طویل عرصے تک فاقہ کشی کا سامنا کرنے والی روح کو ایک معمولی سا لقمہ بھی دعوت شیراز معلوم ہوتا ہے ، اس طرح انسان ہمہ وقت تبدیلی کے کسی اشارے کی تلاش میں چشم براہ رہتا ہے ۔ لیکن امید کی جھلک لیے صبحیں بہت جلد مایوسی کے گہرے سایوں سے ڈھکی شاموں سے گلے ملتی ہیں۔یہ ایک نا ختم ہونے والا سلسلہ ہے جس کی روش اٹل ہے ۔ کچھ بھی اس مایوس کن حالت کو فیض کے اس مصرع سے بہتر بیان نہیں کر سکتا :یہ ماتم وقت کی گھڑی ہے ۔
لیکن ماتم گساری تو ہتھیار ڈالنے کے مترادف ہے ۔ کیا لوگوں کو اس کی سنگینی کا احساس دلاکر امید پیدا کی جا سکتی ہے ؟لیکن یہ عمل شروع کرنے سے پہلے اصل چیلنج بنیادی مسائل پر توجہ مرکوز کرنا ہے جو ریاست کے لیے سوہان روح ہیں، اور اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ اس ستم زدہ ملک کے شہریوں کی توجہ اس طرف مبذول ہوجائے ۔ پالیسیوں کی چھتری تلے کسی بھی تبدیلی کو عملی جامہ پہنانے کیلئے ریاستی اداروں کا کردار اہم ہوتا ہے۔ ہمارے نام نہادریاستی ستونوں کی ناکامیوں کے چرچے چار دانگ عالم میں ہیں۔ کسی نے کبھی غیر جمہوری قوتوں کے مسلسل حملوں کے خلاف مزاحمت نہیں کی ۔ عدلیہ نے متعدد آمرانہ منصوبوں کے سامنے سر تسلیم خم کرنے میں جو کردار مسلسل ادا کیا ہے وہ کسی طور باعث عزت نہیں۔نظریہ ضرورت تراشنے سے لے کر 26ویں آئینی ترمیم کے اطلاق میں سہولت کاری سے آزاد عدلیہ کے خاتمے کی راہ ہموار کرنے تک اس کا طرز عمل اس کے چہرے پر انمٹ کالک مل چکا ہے ۔ ادارے پر کڑی تنقید کرتے ہوئے جسٹس بابر ستار اور جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان کی طرف سے لکھے گئے حالیہ خطوط میں اس خرابی کی نشاندہی کی گئی ہے۔
قانون ساز ادارے ، جو زیادہ تر مفاد پرستوں کی آماجگاہ ہیں، اور جومتعصبانہ خطوط پر کام کر رہے ہیں، اور بیوروکریسی میں پھیلی ہوئی بدعنوانی جس کا کوئی حساب نہیں ہے، کے علاوہ یہ مسئلہ وقت کے ساتھ ساتھ شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ اس کا تعلق مرکزی دھارے اور سوشل میڈیا کے وسیع نیٹ ورک کے ذریعے پھیلائی جانے والی غلط معلومات سے ہے۔ سب سے پہلے اور سب سے اہم بات کہ یہ بیماری صنعت کی مالی ضروریات اور حکومت کے وسائل پر ان کے زیادہ انحصار سے براہ راست جڑی ہوئی ہے۔ اشتہارات کی باقاعدہ ریلیز کے علاوہ زیادہ تر من گھڑت رپورٹوں کے ذریعے ذاتی تشہیر کا جنون ایک تشویشناک صورت اختیار کر چکا ہے۔ حالیہ دنوں ایک بڑے ضمیمہ کی اشاعت، جس میں تصویری تشہیر کے ذریعے حکومت کی کامیابیوں کو اجاگر کیا گیا تھا ، نرگسیت کی ماری مریضانہ ذہنیت کی عکاسی کرتی ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ اس تباہ کن لہر کے اترنے کے کوئی اشارے دکھائی نہیں دیتے ۔ وقت گزرنے کے ساتھ اس شکنجے کی گرفت مزید سخت ہوتی جارہی ہے ۔ اس نے ملک کو ایک مہیب کھائی کے دہانے پر تک پہنچا دیا ہے ۔ حال ہی میں ہم نے ایک وفاقی وزیر کو کھلے عام کہتے سنا کہ کس طرح بیوروکریسی نے ریاستی وسائل لوٹ کر اپنی ذاتی تجوریاں بھری ہیں اور بیرون ملک جائیدادیں خریدی ہیں۔ مالی سال 2023-24 کا احاطہ کرنے والی آڈٹ رپورٹ میں حیران کن مالی بے ضابطگیوں کا حوالہ ہے، جن کا حجم 375 ٹریلین روپے ہے ۔ قومی اسمبلی کےا سپیکر نے رپورٹ کو وزارت پارلیمانی امور کے ذریعے بھیجنے کی بجائے براہ راست ایوان میں بھیجے جانے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے آڈیٹر جنرل آف پاکستان کو واپس بھیج دی۔ گویا اس خوفناک اسکینڈل کو دفن کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔
یہ سب اسی نیٹ ورک کی وجہ سے ہے جو کرپٹ حکمران اشرافیہ کے ارکان کو آپس میں جوڑتا ہے۔ ان کے پاس اقتدار کی کرسی ہے، اور اس طرح ہر کسی کو خاموش کرانے کی طاقت بھی۔ یہاں تک کہ ایک حاضر سروس وزیر کی کال بھی کسی کے ضمیر کو جھنجھوڑنے میں ناکام رہتی ہے کہ کوئی سوال کیا جائے ، کوئی انکوائری ہو۔ ارباب حکومت کے اقوال و افعال کو ارباب طاقت مفاد کی زنجیروں سے باندھ کر رکھتے ہیں۔ کوئی بھی اپنی جگہ سے نہیں سرک سکتا کیوں کہ پھر مفاداور ترغیبات پر مبنی یہ بدعنوان نظام دھڑام سے زمین بوس ہوجائیگا۔ یہ وہ مہیب نظام ہے جو ضرورت مندو ں اور ستم زدہ عوام پر حاوی ہے ۔
بظاہر یہ جو بھی طاقت رکھتا ہو، یہ نظام ادھار کی بیساکھیوں پر کھڑا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اپنے اثاثوںکی سکت سلب کرتے ہوئے یہ کھوکھلا ہو چکا ہے، اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کے قابل نہیں رہا۔ یہ مستعار کی طاقت اسے غیر جمہوری قوتوں کے سامنے مزید کمزور بنا دیتی ہے جن کی گرفت ملک کی ہر چیز پر سخت ہوتی جارہی ہے۔اس ناجائز گٹھ جوڑ کو توڑنا عوام کے سامنے اصل چیلنج ہے۔ یہ کوئی آسان کام نہیں کیونکہ یہ حکمران مافیا کے تمام ارکان کو فائدہ پہنچاتا ہے جبکہ غریبوں اور بے سہارا لوگوں سے معمولی روزی کمانے کے طریقے بھی چھین لیے جاتے ہیں۔ لیکن یہ بات بھی واضح ہے کہ اگر اس گٹھ جوڑ کو برقرار رہنے دیا گیا تو حکمران مافیا مزید طاقت حاصل کر لے گا۔ریاست اور اس کے معاملات کو چلانے والے تمام عناصر پر اس کی گرفت برقرار رہے گی۔
ہم ایک کھائی کے دہانے پر کھڑے ہیں۔ مفاد پرست مافیا ماضی میں جو کچھ کرتا رہا ہے اگر ہم اسے برداشت کرتے رہے تو یہ لامحالہ تباہی کا باعث بنے گا۔ اور اگر ہم پیچھے ہٹتے ہیں اور ایک نیا راستہ تراشنے کی کوشش کرتے ہیں تو اس کیلئے بے مثال ہمت اور استقامت کی ضرورت ہوگی۔ بہر حال آج انتخاب کوئی مشکل نہیں رہا۔ مستقبل کا راستہ کٹھن ہے، لیکن آزادی کا واحد راستہ یہی ہے۔
(کالم نگار پی ٹی آئی کے رہنما ہیں)