• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ تو برسوں کے بعد پتہ چلا کہ یوپی اور سی پی میں کیا فرق ہے وگرنہ ہم ہر اردو بولنے والے کو ’’اہل زبان‘‘ سمجھا کرتے تھے یہی نہیں پاکستان میں ہجرت کرنے والے ہر شخص کو دلی، لکھنؤ اور آگرے کا خیال کرکے اس سے پوچھا کرتے کہ جدو جہد، امروز، زلیخا کا درست تلفظ کیا ہے؟ مامور اور معمور میں کیا فرق ہے؟ سر آنکھوں پر اور سر ماتھے پر میں درست کیا ہے،اور تو اور روزبروز کی جگہ دن بدن، السلام علیکم کی جگہ اسلام و علیکم اور بالکل کے مقام پر بلکل لکھنے والوں سے کیا سلوک کیا جانا چاہئے؟ پھر یہ بھی خیال کیا کرتے تھے کہ وہ ہجرت کرکے اگر پاکستان نہ آتے اور اتنی قربانیاں نہ دیتے تو پاکستان ہی نہ بنتا مگر یہ تو کوئٹہ کالج کے ایک سینئر استاد ہمارے ملتان کے کالج کے وائس پرنسپل اور صدرشعبہ اردو ہوئے تو انہوں نے ہم ’’مقررین‘‘ سے انکا محبوب مشغلہ چھین لیا اور کہا پیارے شاگردو! میں جبل پور کا ہوں میں فارسی اور اردو میں ایم اے کرکے وہاں ایک کالج میں پڑھا رہا تھا مگر میری باتوں اور کچھ حرکتوں سے امکان پیدا ہو گیا تھا کہ مجھے ملازمت سے سبک دوش کر دیا جائیگا میرے بڑے بھائی پولیس سروس میں تھے وہ کراچی آ گئے اور مجھے کہا یہ نیا ملک ہے یہاں قسمت آزمائو،میں پہلے پہل اپنی والدہ کے ساتھ کراچی آیا وہاں جبل پور کے ہی مصطفی خان کے ساتھ مل کر کراچی کی دیواروں پر شام کے کالج ’’اردو کالج‘‘ کی خوش خبریاں لکھا کرتا تھا پر میاں کیا پوچھتے ہو کراچی یونیورسٹی کے رئیس الجامعہ ڈاکٹر محمود حسین (وہی ڈاکٹر ذاکر حسین اور ڈاکٹر یوسف حسین کے بھائی) نے اس اردو کالج کا الحاق یونیورسٹی سے نہ کیا اور ہم پر رزق اور عزت کا دروازہ بلوچستان میں کھلا۔ پاکستان میں اردو کے لیکچرار کی پہلی پوسٹ گورنمنٹ کالج کوئٹہ کیلئے مشتہر ہوئی یوں جبل پور کا خلیل صدیقی ’’کوئٹہ والا‘‘ ہو گیا۔ اس نے بی اے ڈبل میتھ سے کیا تھا، اپنے شوق مطالعہ سے الہ آباد یونیورسٹی سے ایم اے فارسی اور پھر ایم اے اردو کیا۔اس کی چار باتیں پلے باندھ لو:

(الف) آپ اپنی مرضی سے کسی علاقے یا خاندان میں پیدا نہیں ہوئے سو فطرت کے جبر پر فخر مت کرو جوسیکھا اور دنیا کو بتایا اور سکھایا اس پر ضرور ناز کرو۔(ب) کہیں جمہوریت نہ بھی رہے تو زبان میں جمہوریت رہے گی زبان، ہونٹ، تالواور حلق سب کے پاس ہیں مگر انکو استعمال کرنا آپ سیکھتے ہیں ماں سے بڑوں سے، کچھ علاقوں کے لوگ دو ساکت آوازیں نہیں بول سکتے سوایک کومتحرک کر دیتے ہیں، کہیں تذکیر و تانیث کے مسئلے ہیں ان کا مذاق نہ اڑائو پھر سب کو اپنی ماں پیاری ہوتی ہے ہر ایک کی ماں کا اور مادری زبان کا احترام کرو۔ (ج)اگر یہ زعم پیدا ہو جائے کہ تم بہت پڑھے لکھے ہو تو کسی اچھے کتاب خانے کا ایک شیلف غْور سے دیکھ لینا ،پتا چل جائے گا کیا کچھ ابھی پڑھنا اور جاننا رہتا ہے۔ (د) ریاضی،فلسفے اور لسانیات آپ کو منطق سکھاتے ہیں اگر یہ نہ سیکھا اور تمہارا دعویٰ بغیر دلیل کے ہے تو پھر عینک لگانے، ڈگری لینے سے تم پڑھے لکھے نہیں ہو سکتے۔

استاد محترم !آپ قدم قدم پر یاد آتے ہیں، ڈاکٹر خواجہ زکریا صاحب کی آپ بیتی شائع ہوئی ہے انہوں نے لکھا ہے کہ انوار احمد لیکچرار تھا تو چھوٹی چھوٹی بات پر مکتوب لکھ مارتا تھا کیا میں بتائوں کہ جب وہ ہمارے صدر شعبہ تھے تو میں نے انہیں مکتوب میں کیا لکھا تھا یا وائس چانسلر ڈاکٹر الطاف علی قریشی کو بھی لکھ دیا تھا کہ کاش اس معاملے میں آپ’’تدبر‘‘ سے کام لیتے ۔آج جب پانی نے ہمارے بہت سے علاقوں کا محاصرہ کیا ہے تو کئی چینل کے ٹیلپ ’’بہائو‘‘ کو ’’بھائو‘‘ لکھ رہے ہیں اور انجمن ترقی اردو کے سید عابد رضوی پریشان ہیں کہ ’’فرو گذاشت‘‘ کا املاز کیساتھ ہے یاذ کیساتھ۔ اور وہ لوگ بھی گھبرائے ہوئے ہیں جو بحث کیا کرتے تھے کہ’’پنجاب‘‘ کے لفظ سے ’’پنج ند‘‘ زیادہ قدیم ہے۔

٭٭٭٭

بہت سوں نے فیض احمد فیض کے بارے میں اشفاق احمد کی دل کو چھو لینے والی تحریر پڑھی ہوگی کہ اگر سرکار رسالت مآب کے دور میں فیض ہوتے اور کسی بد زبان کے پاس کسی ایلچی کو بھیجنا ہوتا تو ہمارے نبیﷺ فیض کو طلب کرتے کہ وہ نرم خو ہے،صبر والا ہے کسی گالی کا جواب نہیں دیتا اسے وہاں بھیجو ۔آج ہمارے ہاں ہمارے پیارے نبی کی ولادت کے پندرہ سو سال مکمل ہونے پر بجا طور پر عمارتوں پر چراغاں ہو رہا ہے، نعتیہ مشاعرے ہو رہے ہیں،سوچا جا رہا ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل میں پہلی مرتبہ تین خواتین کو نامزد کیا جائے مگر ہمیں کسی کو بتانے کی ضرورت ہے کہ کمزوروں یعنی عورتوں،بوڑھوں اور بچوں کیساتھ قیدیوں پر بھی شفقت کی ضرورت ہے اور کسی پڑھے لکھے استاد کو پھانس کر اہانت دین کا ملزم بنایا گیا ہو تو ننگی تلواریں لئے ہجوم کو اشفاق احمد کی یہ تحریر بار بارکیوں نہ سنائی جائے؟

٭٭٭٭

’’دل تے دم کر‘‘ کا شاعر (حماد خان )امریکہ میں ہے جہاں سے صدر ٹرمپ کا روزانہ کلام نشر ہوتا ہے ،جس کا محور نریندر مودی ہیں تو کبھی روس اور چین کے لیڈر۔ انگریزی کے باوجود بہت سوں کو یہ سمجھ میں آتا ہے، اکتوبر میں کہیں پتا چلے گا کہ امن کا نوبل انعام انہیں ملتا ہے یا کسی فلسطینی کو جب تک آپ ڈیرہ غازی خان کے شاعر کو کیوں نہ سنیں کہ یہ حماد خان ایسی سرائیکی زبان لکھتا ہے کہ کوچہ و بازار کے سبھی لوگ سمجھ سکتے ہیں۔

چپ دا مطلب… کیویں ہاں ہے؟

پکھی ہن،پر…بے پر بے پر

ما ،دی خدمت … حج توں لکھ وے

بجھ گیا ڈیوا… بلدے بلدے

دل،گھر اوندا …(تے) او گھر کائنی

دشمن جو ہِن … گھاتاں ہوسن

تازہ ترین