• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میری عمر کے ہر شخص کے پاس ایک کیلنڈر ہوتا ہے،کچھ تاریخیں ہیں جو اس کے دل پر لکھی ہیں انہی میں سے ایک ستمبر کی11ہے، اس دن جس کی وفات ہوئی اس کے بارے میں اس کے مخالفوں نے بھی کہا کہ وہ سچا تھا قانون اور دلیل سے بات کرتا تھا،جلسوں میں لوگوں کو جذباتی کرکے چندے نہیں لیتا تھا جو کوئی مسلم لیگ یاپاکستان کیلئے مدد کرنا چاہتا وہ ان سے کہتا مسلم لیگ کے مرکزی دفتر میں بھیجو اور رسید لو اس کی۔ایسا نہیں کہ ان سے پہلے مسلمانوں کے لیڈر امانت دار نہیں تھے،آپ ترکیہ میں انقرہ کے مرکزی بازار کزلئی جائیں تو اتا ترک کے ترکیہ کے پہلے بینک( محنت کشوں کیلئے) کے سامنے ایک بڑے پتھر پر ترکی زبان میں لکھا ہے’’ یہ بینک ہندی مسلمانوں کے عطیات( سونا،چاندی،سنہری دستے کی تلواروں اور پائونڈ) سے قائم ہوا‘‘،تب آپ کو محمد علی جوہر، شوکت علی اور ان کی اماں یاد آتی ہیں اور ان کی تحریک خلافت بھی،یہ اور بات کہ سیاست میں کئی بدلائو آتے ہیں لیکن تاریخ تو تاریخ ہے۔اتاترک نے خلافت کے ادارے کو منسوخ کیااور وہاں کی لیڈر شپ خلافت کی بحالی کا خواب دیکھتی ہے۔آج بہت سے مصور محمد علی جناح کے ہاتھ میں اپنی مرضی کا پرچم تھمانے کی کوشش کرتے ہیں مگران کی زندگی اورسیاست کے ہر دور پر کتابیں ہیں،ان کی اپنی تقریریں ہیں، پر کوئی نہیں کہتا کہ سچ نہیں بولتے تھے،دیانت دار نہیں تھے۔تقسیم ہند کے مخالف بھی کہتے ہیں کہ جناح لاقانونیت اور فساد نہیں چاہتے تھے وہ مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ چاہتے تھے مگران کی پہلی کابینہ کے افراد کے نام ہی دیکھ لیں قانون کا قلم دان جوگندرناتھ منڈل کے پاس،وزارت خارجہ سر محمد ظفراللہ کے پاس۔ قومی تاریخ پر کوئی کیا پردہ ڈال سکتا ہے،ایک وقت تھا کہ مفکر پاکستان کی مسلم لیگ جناح لیگ کے مقابل شفیع لیگ کہلاتی تھی مگر1936-37 کے انتخابات سے دل برداشتہ ہونے والے محمد علی جناح کو علامہ اقبال لکھ رہے ہیں کہ انگلستان سے واپس آئیں کہ اس وقت پاکستان کا مقدمہ لڑنے کے لئے آپ سے بہتر وکیل اور رہنما کوئی نہیں۔ اقبال کے یہ خط جناح نے ہی مرتب کئے اور شائع ہوئے آپ پڑھ لیں کہ علم الاقتصاد پرکتاب لکھنے والے کے ذہن میں پاکستانی معاشرے کا کیا تصور تھا۔ ہم جیسے مدرس جب اپنی کلاس کے ساتھ مل کر’’اقبال کے آخری دو سال‘‘ اور یہ خط پڑھا کرتے تو کوئی نہ کوئی طالب علم یہ سوال اٹھا دیتا کہ اقبال کے خطوں کے جواب میں محمد علی جناح نے جوخطوط لکھے وہ کہاں گئے؟ ایسے میں کچھ طالب علم اشارہ کرتے کہ علامہ اقبال کی اگر ایک ہی شادی ہوتی اور وہ بھی محمد علی جناح کی طرح کامیاب وکیل ہوتے یا ان کی مقبولیت کے سبب ان کےگھر میں برطانوی خفیہ پولیس کے کچھ کارندے اہل قلم کے بھیس میں آیا جایا نہ کرتے تو جناح کے یہ مکتوبات ادھر ادھر نہ ہوتے۔ یہ باتیں بے اختیار یاد آ گئیں بابائے قوم کے یوم وفات پر اور کچھ محمداظہار الحق نے ایک کتاب کے حوالے سے محمد علی جناح کی وکالت کے حوالے سے چند باتیں لکھیں کہ وہ تب ایک ہزار روپے فی پیشی فیس لیتے تھے اس میں کمی نہیں کرتے تھے اورجب مجسٹریٹ اورمخالف وکیل کا خیال ہوگا کہ وہ مغربی رہن سہن کے عادی ہیں انہیں اسلامی کیلنڈر کے بارے میں کیا علم ہوگا مگر وہ اپنی موکلہ کے حق میں اسلامی کیلنڈر نکال کے لے آئے کہ ان کی عدت پوری ہوچکی( آتش چنار شیخ عبداللہ) پھر محمد علی جناح کے وصیت نامے کا خیال آیا مگر شریف الدین پیرزادہ جیسے جادو گروں نے ان کی وصیت میں تحریف کر دی تھی کہ اب علی گڑھ یونیورسٹی کو سالانہ عطیہ بھیجنے کی ضرورت نہیں کہ وہ ہمارے’’دشمن ملک‘‘میں ہے اسلئے اگر سرسید کے نام پر کراچی میں کوئی یونیورسٹی بن جائے تو جناح کا عطیہ وہاں بھیج دیا جائے۔ آج کے اخبارات میں امریکہ کی مشی گن یونیورسٹی کی ایک ریسرچ کے بارے میں خبر ہے کہ عالمی مشاہیر کے وصیت ناموں کا جائزہ لیا گیا ہےکہ وہ انسانیت کے آنگن میں امید کے کیسے کیسے چراغ جلا گئے۔

علامہ اقبال نے محمد علی جناح کو جو خط لکھے ان میں سے دو مختصر اقتباس دیکھئے:’’نئے آئین (1935) میں بڑی بڑی اسامیاں تو اعلیٰ طبقے کے بچوں ہی کیلئے وقف ہیں اور جو چھوٹی ملازمتیں ہیں،وہ وزرا کے دوستوں اور رشتہ داروں کی نذر ہوجاتی ہیں،روٹی کا مسئلہ روز بروز ٹیڑھا ہوتا جا رہا ہے،عام طور سے مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ بنئے کی سود خوری اور سرمایہ داری ان کی غربت کی ذمہ دار ہے،لیگ کا تمام مستقبل اس بات پر منحصر ہے کہ وہ کس حد تک مسلمانوں کے اس مسئلے کا حل نکالتی ہے‘‘۔

’’لیگ مسئلہ فلسطین پر ایک بہت ہی سخت قرارداد منظور کرے گی تو لیگ کو مقبولیت ملے گی اور شاید فلسطین کے عربوں کو بھی کچھ فائدہ پہنچ جائے،ذاتی طور پر میں ایسے امر کے لئے جیل جانے کو بھی تیار ہوں۔مشرق کے دروازے پر مغرب کا ایک اڈہ بننا اسلام اور ہندوستان دونوں کیلئے پر خطر ہے‘‘۔

آپ ان حالات سے تو واقف ہیں جب محمد علی جناح کے والد دیوالیہ ہوئے تو ایک دوست کی وساطت سے انہیں لندن بھجوایا کہ ایک کامیاب وکیل اور امیرآدمی بن کر واپس آئیں کچھ برسوں کے بعد جب جناح نے والد کو لکھا کہ مجھے ایک تھیٹریکل کمپنی میں شیکسپیئر کے کچھ کرداروں کے مکالمے ادا کرنے کیلئے منتخب کر لیا گیا ہے تو انہوں نے کسی قدر سختی سے لکھا تمہیں وہاں اداکار (صداکار) بننے کیلئے نہیں بھیجا گیا،یاد رکھو تم نے ایک وکیل بننا ہے اور ساتھ ہی ساتھ امیر آدمی بننا ہے۔یہ موقع نہیں کہ اس واقعے کا ذکر کروں جب محمد علی جناح کو مشورہ دیا گیا کہ اب پاکستان بن گیا،آپ اپنی ساری دولت سرکار کودے دیں یعنی اسٹیٹ بینک کو تو انہوں نے کہا تھا کہ ایک جلسے کیلئے پہلے پیدل اور پھر سواریوں والے تانگے میں بیٹھ کر شریک ہونیوالے حسرت موہانی کا حشر دیکھ چکا ہوں،اس لئے’’جینٹل مین ! تھینکس‘‘

تازہ ترین