• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ ماہِ ستمبر ہے ہمارے محبوب قائد اور بانی پاکستان حضرت قائد اعظم کا ماہِ ولادت… ایک ایسے تاریخ ساز سیاست دان کی پیدائش کا مہینہ جس نے کرہ ارض پر مسلمانوں کے سب سے بڑے ملک پاکستان کی بنیاد رکھی اور جس کی قیادت میں برصغیر کے تمام مسلمانوں نے آگ اور خون کے دریا پار کر کے آزادی کی منزل حاصل کی لیکن وہ سارے سنہری خواب ایک ایک کر کے ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے کہاں وہ ولولہ اور جوش و خروش اور کہاں یہ مایوسی!میں چشم تصور سے دیکھ رہا ہوں کچھ ایمان افروز اور کچھ روح شکن مناظر!!

23 مارچ 1940ءکو آزادی کے متوالوں کا لاہور منٹو پارک میں (جسے اب اقبال پارک کہا جاتا ہے) عظیم الشان اجتماع ۔آزادی کے ان دیوانوں کو نہ انگریز سرکار کی لاٹھیاں روک سکتی ہیں اور نہ ہی ہندوؤں کی پرکشش ترغیبات وہ پاکستان کے حصول کیلئے اس قدر پرجوش ہیں کہ وہ پاکستان اور اپنے قائد کے خلاف ان جید مذہبی علماء کے منہ سے بھی ایک لفظ تک سننے کیلئے تیار نہیں جنہیں وہ اپنا مذہبی پیشوا سمجھتے تھے اور جن کے اشاروں پر وہ اپنی جان قربان کرنے کیلئے تیار رہتے تھے۔یہ اعلان تھا کہ ان کا پاکستان مذہبی تعصب اور فرقہ واریت سے پاک ہوگا کیونکہ وہ ہندوؤں کے مذہبی تعصب کے خلاف ہی تو پاکستان چاہتے تھے جس نے انہیں تعلیم سیاست اور معیشت سے بے دخل کر دیا تھا اور انہیں خوف تھا کہ انگریزوں کے چلے جانے کے بعد وہ انہیں شدھی اور سنگھٹن جیسی مسلم کش تحریکوں کے ذریعے دو بارہ غیر مسلم بنا دیں گے وہ جو اسی نفرت کے ہاتھوں غربت ذلت اور احساس کمتری کی چکی میں پس رہے تھے-- پاکستان کو اپنے لیے جائے پناہ سمجھتے ہوئے اپنی آنے والی نسلوں کو ایک محفوظ وطن دینا چاہتے تھے جہاں مذہب قومیت اور ذات پات کی بجائے مساوات کا راج ہو…جہاں سب کیلئے انصاف اور روٹی کپڑا اور مکان کی ضمانت حاصل ہو…

میں چشم تصور سے دیکھ رہا ہوں ایک روح پرور منظرکہ ان کا محبوب قائد لاکھوں کے مجمع میں اپنی بجلی کی طرح کڑکتی ہوئی آواز میں کہتا ہے "پاکستان ایک حقیقت ہے جسے وجود میں آنے سے کوئی نہیں روک سکتا " غریب مظلوم اور محکوم مسلمان یہ ملک کیوں چاہتے ہیں وہ عظیم قائد مختلف مواقع پر اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہتا ہے" ایک ایسا ملک جہاں عوام اپنی مرضی سے حکومت بنا سکیں وہ باہمی مشاورت یعنی جمہوری اصولوں کے مطابق امور مملکت چلا سکیں جہاں تعلیم معیشت اور سیاست میں سب کا برابر حصہ ہو جہاں عزت کا معیار صرف کام اور قابلیت ہو جہاں تمام مذاہب کے لوگ بلا امتیاز بھائی بن کر رہ سکیں جہاں مذہب سب کا ذاتی مسئلہ ہو جس کا امور سلطنت سے کوئی تعلق نہ ہو جہاں مسجدیں گرجا گھر اور مندر آزاد ہوں جہاں انسانی حقوق کا بول بالا ہو جہاں انسانیت سرفراز ہو‘‘۔

پھر میں چشمِ تصور سے دیکھتا ہوں ایک روح شکن منظر لاکھوں جانوں کی قربانی اور 46 کے جمہوری عمل کے ذریعے حاصل ہونے والا پاکستان …دنیا کی سب سے بڑی مسلمانوں کی سلطنت۔ ابھی شہیدوں کا خون پھیکا بھی نہیں پڑا ابھی تقسیم کے گھاؤ مندمل بھی نہیں ہوئے کہ وہ سارے بہروپیے جو اس کے خلاف تھے اب نئے چہرے بدل کر اس کے محافظ و مالک بن بیٹھے نئے نئے نعرے گونجنے لگے نظریہِ پاکستان کی نئی نئی تاویلیں ہونے لگی پاکستان ایک مذہبی ریاست ہوگا …جمہوریت غیر اسلامی ہے…روٹی کپڑا اور مکان کا مطالبہ ٹھیک نہیں…انسانی حقوق کا نعرہ فریب ہے…انتخابات فرنگی کی نشانی ہے…حق بات کہنا ملک و قوم سے غداری ہے۔۔اور اپنا حق مانگنا ناقابلِ معافی جرم ۔۔مضبوط پاکستان نہیں مضبوط مرکز…ون یونٹ زندہ باد…بلوچی غدار… سندھی غدار…بنگالی غدار…بنگالی نہیں بنگال چاہیے…پھر گولیاں ہی گولیاں خون ہی خون اور انسانی تاریخ کا پہلا سب سے بڑا اسلامی ملک… میرا پاکستان…تیرا پاکستان …اپنے قیام کے صرف 23 سال کے بعد ہی ٹوٹ گیا …اسلامی تاریخ کا سیاہ ترین باب ۔

اس کے بعد بھی میں نے اپنی ان گنہگار آنکھوں سے دیکھا اس تاریخی سانحہ کے سب ذمہ دار دندناتے رہے…جمہوریت سے روگردانی کے خوفناک انجام سے کیا سبق سیکھا ؟؟ کوڑے قیدیں… جرمانے… پھانسیاں… مذہبی منافرت … زر پرستی…کرپشن…دوسری طرف ایک اور انتہا…غربت…جہالت…چیخ و پکار…خودکشیاں…سب اچھا ہے کا راگ…بے روح جمہوریت…بے نور عوامی راج…آمریت کے سائے اور گہری رات!!!

اور آج…آج بھی اے میرےقائد میں اپنی بے بس آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں نہ وہ جسم رہا نہ وہ روح رہی…مگر چلن وہی…بے نشان منزل…بے نور راہیں…تیرے خواب پرزہ پرزہ ۔۔عوام کی حکمرانی ریزہ ریزہ ۔۔پیٹ بھوکے…ہاتھ ناتواں…چہرے قبرستان کی طرح…تیرے خوابوں کے روشن خیال پاکستان میں ہم مسلمانوں کے ہاتھوں نہ اسلام نہ مسلمان محفوظ… مسجدوں میں بندوقوں کے سائے تلے عبادت۔ہر طرف ہو کا عالم ہے قبرستان کی خاموشی ہے… سارے قانون شکن دندناتے پھر رہے ہیں …

دیکھ رہے ہو قائد اعظم اپنا پاکستان؟

ہم کہ آزادیِ جمہور کے متوالوں نے

ہر سرِدار بغاوت کے ہیں نغمے گائے

پرچمِ جاں کو صلیبوں پہ سجایا ایسے

قتل گاہوں پہ صداقت کے علم لہرائے

یہ قتل گاہیں کب ختم ہوں گی اے میرے قائد اعظم؟

تازہ ترین