پتہ نہیں دوست احباب کو کیسے پتہ چل گیا ہے کہ ان دنوں میرے پاس وہ سب اختیارات ہیں جو نواز شریف ،شہباز شریف مریم نواز اور ان کے مرکز اور چاروں صوبوں کی حکومتوں کے پاس ہیں اور یوں یہ سب حکومتیں میرے اشارے پر چلتی ہیں۔ نواز شریف کے بارے میں تو ان کا کہنا ہے کہ وہ آپ کے پرانے دوست ہیں وہ سچ کہتے ہیں مگر لفظ دوست مبالغہ آمیز لگتا ہے میں ان سے بے پناہ محبت کرتا ہوں اور وہ بھی اس حوالے سے کوئی کسر روا نہیں رکھتے۔ شہباز شریف صاحب سارا سال مختلف ممالک کے دوروں پر رہتے ہیں ویسے ہی وہ مجھ سے اس زمانے سے خفا ہیں جب میں نے الحمرا کی چیئر مین شپ سے استعفیٰ دے کر پی ٹی وی کی چیئر مین شپ قبول کر لی تھی۔ باقی رہیں مریم نواز تو ان کے پنجاب کے وزیراعلیٰ بننے سے پہلے میں انہیں مریم بیٹی کہتا تھا اب نہیں کہتا۔
یہ وضاحت مجھے اسلئے کرنا پڑ رہی ہے کہ میرے پاس روزانہ بیسیوں لوگ اپنے کام کے لیے آتے ہیں اور کہتے ہیں آپ کیلئے یہ معمولی کام ہے اور یوں اس کے لیے آپ کو تکلیف دینا اچھا تو نہیں لگتا مگر آپ کو پتہ ہے میں درویش منش آدمی ہوں کبھی دنیاوی عہدوں کی خواہش نہیں کی ، مگر میرے بچے کہتے ہیں کہ قاسمی صاحب آپ کے بچپن کے دوست ہیں( استغفراللہ )تو کیا ان کی حکومت میں بھی آپ کلرک کے کلرک ہی رہیں گے، انہیں کہیں کہ وہ آپ کو چیف سیکرٹری پنجاب مقرر کر دیں۔ میں اس وقت اسی سلسلے میں آیا ہوں کلرک سے کہیں کہ میرے چائے پینے کے دوران (جس چائے کا میں نے آرڈر ہی نہیں دیا تھا )آرڈر ٹائپ کر کے لے آئے۔
یہ تو مشتے از خروارے ہے ۔مجھے تو کچھ ملنے والوں نے یہ تجویز بھی دی ہے کہ آپ نواز شریف کو کہہ کہلا کر فوراََ وزیراعظم بن جائیں اور مجھے پنجاب کا وزیر اعلیٰ بنوا دیں مریم نواز بہت اچھی بچی ہیں انہیں اپنے انکل (اللہ اکبر) کی وزارتِ اعلیٰ پہ اعتراض کیا ہونا ہے۔وہ تو بہت خوش ہوں گی کہ حق بحق دار رسید ۔
ان صاحب نے تو اس خواہش کا اظہار بھی کیا وہ اپنا نام بدل کر کاغذوں میں عطاء الحق قاسمی لکھوا لیں گے تاکہ آپ کو کوئی زحمت ہی نہ دینا پڑے ۔میں نے کہا مجھے کوئی اعتراض نہیں مگر اس سے پہلے تم اپنی اہلیہ سے مشورہ کر لو کہ کیا وہ اپنے سارے بچوں کی ولادت کے حوالے سے تمہارے نام کی بجائے میرا نام لکھوا دیں گی ؟ پتہ نہیں کیوں وہ اس دفعہ کچھ دیر خاموش رہے اور پھر مجھے وقفے کے بعد کہنے لگے ’’پوچھنے کی کیا ضرورت ہے میرے بچوں اور تمہارے بچوں میں کیا فرق ہے ‘‘ ،’’میں نے عرض کی اس میں تھوڑا سا فرق ہے اور وہ یہ کہ مجھے یقین ہے کہ میرے بچے میرے بچے ہیں‘‘قارئین سے معذرت کہ یہ گھٹیا گفتگو میں ایک گھٹیا شخص کے ساتھ کر رہا تھا۔
میں اس قصے کو طول نہیں دینا چاہتا صرف اتنا بتانا چاہتا ہوں کہ شریف فیملی کے ساتھ میرے تعلقات نصف صدی پرانے ہیں۔جب یہ ماڈل ٹاؤن میں میرے ہمسائے تھے ان سے محبت کا سبب صرف ہمسائیگی نہیں بلکہ ان کی خوئے دلنوازی ہے۔خیر موضوع سے ہٹ نہ جاؤں اس طرح کی سفارشیں صرف مجھے نہیں آتیں میرے بچوں اور اہلیہ کی معرفت بھی موصول ہوتی رہتی ہیں چنانچہ ان دنوں جب میں گھر جاتا ہوں تو پھلوں کے ٹوکرے ،مٹھائی کے ڈبے،زنانہ اور مردانہ سوٹ اور پرفیومز کے ڈھیر لگے ہوتے ہیں اور شام کو یہ حاتم طائی مجھے فون کر کے مبارک دیتے ہوئے کہتے ہیں اللہ نے ان کی سن لی اور آپ کی حکومت بن گئی آپ کو کچھ کہنے کی ضرورت نہیں کہ ساری دنیا جانتی ہے کہ آپ دوست نواز ہیں اب میں کیا عرض کروں کہ ان میں سے کوئی بھی میرا دوست نہیں ہوتا اور اللہ نہ کرے میرا کوئی دوست ایسا ہو۔میں ان دنوں اخبارات میں اشتہار دینے کی سوچ رہا ہوں وہ کچھ اس طرح کا ہو گا۔
اطلاع عام
جملہ قارئین کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ میری حکومت دو ہفتے تک رہی تھی مگر اس کے بعد بعض لوگوں کی سفارش کرنے کی وجہ سے نواز شریف صاحب سے میرے تعلقات ختم ہو گئے اس کی بہت سی وجوہات سامنے آئیں ۔ایک صاحب کی میں نے سفارش کی تھی انہیں پاکستان بھر کے جیل خانہ جات کا افسر اعلیٰ بنا دیا جائے تحقیق کی تو پتہ چلا عدالت انہیں چودہ سال قید بامشقت کی سزا سنا چکی ہے۔ اس طرح کچھ اور لوگ جن کی میں نے میاں صاحب سے سفارش کی تھی وہ سب کے سب جرائم پیشہ نکلے چنانچہ جس کے نتیجے میں میاں صاحب سے میرے دیرینہ تعلقات ختم ہو گئے ہیں بلکہ ان سے بول چال بھی نہیں رہی ۔چناںچہ جو لوگ مجھ سے مختلف کاموں کے لیے میاں صاحب سے سفارش کروانا چاہتے تھے وہ اب ممکن نہیں رہی۔میری حکومت اب مجھ سے بات بھی نہیں کر رہی میں ان سب دوستوں سے شرمندہ ہوں جنہوں نے مجھ سے چھوٹے چھوٹے کاموں مثلاً چیف سیکرٹری پنجاب بننے کا یااسی طرح کے دوسرے چھوٹے کام کہے تھے میں نہیں کر سکوں گا کیونکہ میری حکومت ختم ہو گئی ہے ! والسلام