شاہدہ علوی
کسی جنگل میں ایک بکری بہت بے فکری سے ادھر اُدھر گھوم رہی تھی۔ اُسے دیکھ کر ایک کوئے کو بہت حیرت ہوئی، اس نے بکری سے پوچھا ،’’ تم اتنی بے خوف ہوکر کیسے جنگل میں گھوم رہی ہوکہ تمہیں شیر کا خوف نہیں؟ ‘‘
بکری نے کہا ،’’بھائی کوئے، میری بے فکری کا سبب یہ ہے کہ کچھ عرصے پہلے ایک شیرنی اپنے دو بچے چھوڑ کر مرگئی تھی، میں نے ان پر ترس کھا کر دودھ پلا کر پروان چڑھا یا اور اب وہ جوان ہیں اور انہوں نے جنگل میں اعلان کر رکھا ہے کہ ہماری بکری ماں کی طرف کوئی میلی آنکھ سے نہ دیکھے اسی لیے اب کسی جانور میں یہ ہمت نہیں کہ مجھے نقصان پہنچائے۔‘‘
کوئے نے سوچا کاش مجھے بھی ایسی نیکی کرنے کا موقع ملے اور پرندوں کی دنیا میں مجھے بھی ایسا احترام حاصل ہوجائے۔ اب اس کے شب و روز ایسی ہی نیکی انجام دینے کی تلاش میں گزرتے۔ ایک روز وہ یہی سوچتا ہوا اڑا جا رہا تھا کہ اس نے نیچے دریا میں ایک چوہے کو ڈبکیاں کھاتے دیکھا اس نے اسے نیکی کا سنہری موقع جانا، وہ فوراً نیچے اترا اور چوہے کو دریا سے نکال کر ایک پتھر پر لِٹا یااور اپنے پروں سے ہوادینے لگا تاکہ وہ ہوش میں آجائے جوں ہی چوہے کے حواس بحال ہوئے۔
اس نے کوئے کے پر کترنے شروع کردیئے۔ کوا نیکی کی دھن میں مگن تھا اور چوہا اپنی کارگزاری میں مصروف۔ جب وہ بالکل خشک ہوچکا تو اس نے اپنے بل کی طرف دوڑ لگادی۔ کوّا نیکی کرکے بڑی موج میں تھا، اس نےجیسی ہی اڑان بھرنے کی کوشش کی، منہ کے بل زمین پر آگرا اور اڑنے سے معذور ہوکر زمین پر ہی اچھلنے لگا اور گھسٹ گھسٹ کر چلنے لگا۔ اتفاقاً بکری ادھر سے گزری تو اس نے پو چھا،’’ بھائی کوئے تم پر کیا آفت آن پڑی۔‘‘
کوا غصّے سے بولا ،’’ یہ سب تمہارا کیا دھرا ہے، تمہاری باتوں سے متاثر ہوکر میں نے نیکی کرنے کی چاہ میں چوہے کی جان بچائی، مگر وہ تو میرے ہی پر کتر کر بھاگ نکلا بکری نےہنس کر کہا، بے وقوف اگر نیکی کرنی تھی تو کسی شیر کے بچے کے ساتھ کرتاچوہا تو اپنا چوہا پن دکھائے گا۔ بد ذات اور بد نسل کے ساتھ نیکی کرنے والے کا وہی حال ہوتا ہے جو تمہارا ہوا ہے۔ کوے کے بچے موتی چگنے سے ہنس نہیں بن جاتے اور کھارے پانی کے کنویں میں منوں میٹھا ڈالنے کے بعد بھی اُس کا پانی کھاراہی رہتا ہے ۔