یہ ایک عجیب تجربہ تھا ۔ جنوبی پنجاب کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں اپنے سفر کا آغاز ہم علی الصبح چھ بجے کرتے تھے۔ ہمارا مقابلہ صرف سیلابی پانی سے نہیں بلکہ لمبے لمبے فاصلوں اور وقت سے بھی تھا ۔ صبح چھ بجے سے دس بجے کے درمیان گرمی کم ہوتی ہے اور لائٹ بھی ہارڈ نہیں ہوتی ۔ ہارڈ لائٹ میں کیمرے کا استعمال مشکل ہو جاتا ہے اسلئے ہم آوٹ ڈور کام یا تو صبح صبح کرتے تھے یا شام چار سے چھ بجے کے دوران ۔ شام کے اوقات میں مشکل یہ پیش آتی رہی کہ سیلاب زدہ علاقوں میں ٹک ٹاکرز اور یوٹیوبزر کی بھرمار ہو جاتی ہے ۔ ہم تو سیلاب سے متاثرہ افراد کی مشکلات اور مسائل اجاگر کرنے کی کوشش میں ہوتے ہیں لیکن ٹک ٹاکرز اور یوٹیوبرز ہمارے پیچھے لگ جاتے تھے اور اُنکےجمگھٹے کے باعث ہماری نقل و حرکت مشکل ہو جاتی تھی لہٰذا ہماری ترجیح یہ ہوتی کہ شام کی بجائے صبح کام کریں اور شام سے پہلے ریکارڈنگ اور ایڈ ٹینگ مکمل کر کے رات آٹھ بجے اپنا شو جیو نیوز پر نشر کر دیں ۔ ایک دن ہم صبح چھ بجے ملتان کے ایک ہوٹل سے گاڑی میں نکلے تو ایک نامعلوم گاڑی نے ہمارا پیچھاشروع کر دیا ۔ صبح صبح سڑکوں پر رش نہیں ہوتا لہٰذا خالی سڑک پر کوئی گاڑی آپکے پیچھے پیچھے آئے تو خطرے کی گھنٹیاں بجنی شروع ہو جاتی ہیں۔ ہم شہر سے کافی باہر آگئے اور سیلاب سے ڈوبے دیہاتوں کی طرف جانیو الی ایک ٹوٹی پھوٹی سڑک پر آگے بڑھنے لگے ۔ یہ سڑک بھی کہیں کہیں پانی میں ڈوبی ہوئی تھی لیکن اس سڑک پر بھی مشکوک گاڑی ہمارے پیچھے آ رہی تھی ۔ آگے گئے تو اُس چھوٹی سی سڑک پر بڑی تعداد میں گائیں ، بھینسیں اور بکریاں بیٹھی ہوئی نظر آئیں ۔ یہ مویشی سیلاب زدہ علاقے سے نکل کر سڑک پر آ بیٹھے تھے ۔ ہم وہاں رک گئے - ہم سیلابی ریلوں میں پرائیویٹ کشتیاں چلانے والوں کو بلا بلا کر اُن سے کرایہ طے کرنے لگے کیونکہ ہمیں کشتی میں بیٹھ کر آگے جانا تھا ۔ اس دوران ہمارے پیچھے آنیوالی گاڑی سے ایک شخص باہر آیا اور کسی سے باتیں کرنے لگا ۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ کسی کو راستہ سمجھا رہا تھا۔ اس سے پہلے کہ ہم کشتی میں بیٹھ کر آگے روانہ ہوتے مقامی انتظامیہ اور پولیس کا ایک پورا لشکر وہاں پہنچ گیا ۔ ہم صبح ساڑھے چھ بجے ڈی سی اور پولیس افسران کو وہاں دیکھ کر حیران رہ گئے ۔ وہاں نہ تو کوئی ریلیف کیمپ تھا اورنہ ہی کوئی ریسکیو آپریشن چل رہا تھا ۔ صاف پتہ چل رہا تھا کہ انتظامیہ ہمارے پیچھے آئی ہے ۔ ہم کسی خفیہ مشن کی تکمیل تو کر نہیں رہے تھے ۔ لہٰذا ہمیں کوئی پریشانی نہ ہوئی ۔ انتظامیہ کے نمائندوں نے بتایا کہ قریب ہی انھوں نے ایک ریلیف کیمپ قائم کیا ہے وہاں متاثرہ لوگوں کو ناشتے میں نان چنے دئیے جا رہے ہیں انہوں نے کہا آئیں آپکو بھی ناشتہ کرائیں ۔ ہم نے شکریہ ادا کیا اور بتایا کہ ہم تو آگے پانی میں جا رہے ہیں ۔ انہوں نے کہا جس جگہ آپ جا رہے ہیں وہاں ہمارا ریسکیو آپریشن چل رہا ہے ہم بھی آپکے ساتھ چلتے ہیں ۔ ہمیں اُنکے ساتھ جانے پر کوئی اعتراض نہ تھا ۔ دس پندرہ منٹ کے بعد ہم ریسکیو آپریشن والی جگہ پر پہنچے تو وہاں پر پانچ چھ افراد ہاتھوں میں کیمرے اُٹھائے اور آئی فونز کے ساتھ ہماری ویڈیوز بنانے کیلئے تیار کھڑے تھے ۔ میں نے ایک پولیس اہلکار سے سرگوشی میں پوچھا کہ یہ لوگ کہاں سے آئے ہیں ؟ اُس نے بتایا کہ یہ سارے سرکاری ملازم ہیں ۔ میں نے پوچھا کہ یہ تو اپنے حلیے سے بڑے ماڈرن نظر آتے ہیں ۔ پولیس اہلکار نے بتایا کہ آجکل کے ٹک ٹاکر تو ایسے ہی ہوتے ہیں لیکن آج ان بیچاروں کو آپکی وجہ سے صبح صبح اُٹھ کر شہر سے با ہر اتنی دور آنا پڑ گیا ۔ ہمیں یہ بھی پتہ چل گیا کہ صبح صبح ہماری گاڑی کا پیچھا کرنے والا بھی ایک سرکاری ملازم تھا جسکی ڈیوٹی یہ تھی کہ انتظامیہ کو بتائے کہ ہم کس طرف جا رہے ہیں ۔ ہمیں اپنی مانیٹرنگ پر کوئی اعتراض نہیں تھا ۔ ہم ایک ضلع سے دوسرے ضلع میں داخل ہوتے تو اگلے ضلع والوں کو وائر لیس پر بتا دیا جاتا تھا کہ ہم کدھر جا رہے ہیں ۔ سوال یہ تھا کہ سیلاب زدہ علاقوں میں انتظامیہ کے اتنے زیادہ لوگ متاثرین پر توجہ دینے کی بجائے ہمارا پیچھا کیوں کر رہے تھے؟ انتظامیہ کیساتھ سرکاری ٹک ٹاکرز کا ہجوم ہمیں صرف پنجاب میں نہیں بلکہ خیبر پختونخوا کے سیلاب زدہ علاقوں میں بھی نظر آیا۔ ہر جگہ پر کمشنر ڈپٹی کمیشنر اور اسسٹنٹ کمشنرز کے علاوہ ایس پی صاحبان کے ساتھ انکے ٹک ٹاکرز نظر آئے ۔ مجھے ان ٹک ٹاکرز پر کوئی اعتراض نہیں ۔ اگر حکومتی ادارے اور اہم شخصیات سوشل میڈیا کے ذریعے اپنی کار کردگی کو چار چاند لگانے کی کوشش کرتے ہیں تو ضرور کریں لیکن اکثر جگہ پر یہ سرکاری افسران اور سیاستدان ایکٹنگ کرتے نظر آئے۔ میں نے ایک اے ایس پی صاحبہ کو دیکھا۔ وہ ایک ہی جگہ پر بار بار لہراتے ہوئے چل رہی تھیں ۔ جب وہ بار بار لہراتی ہوئی نظر آئیں تو پتہ چلا کہ موصوفہ 'ٹک ٹاک ویڈیو ریکارڈ کروا رہی تھیں ۔ جب وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور سیلاب زدگان میں پانچ پانچ ہزار کے نوٹ بانٹنے کی ویڈیو بنوائیں اور وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز رحیم یار خان کے ایک ریلیف کیمپ میں ایک چھوٹی بچی سے یہ پوچھیں کہ بتاؤ میں کون ہوں ؟ بچی جواب میں کہے آپ مریم نواز صاحبہ ہیں اور’’صاحبہ‘‘کے لفظ پر مریم نواز کا چہرہ کھل اُٹھے۔ پھر یہ ویڈیو میڈیا پر ریلیز کرائی جائے توایک اے ایس پی صاحبہ کو بھی لہرا لہرا کر اپنی ویڈیو ریکارڈ کرانے کا پورا حق ہے ۔ گزارش صرف اتنی ہے کہ اس حق کو استعمال کرتے ہوئے کسی کی حق تلفی نہیں ہونی چاہئے ۔ میں نے سیلاب زدہ علاقوں میں بار بار دیکھا کہ اے سی اور ڈی سی صاحبان یا محکمہ مال یا محکمہ صحت کا عملہ ہمارے سامنے تو متاثرین کے ساتھ مسکرا مسکرا کر بات کرتا تھا لیکن جیسےہی ہم اُنکی نظروں سے اوجھل ہوتے تو اُنکی مسکراہٹیں غائب ہو جاتیں ۔ ریسکیو 1122 کے عملے نے اکثر جگہوں پر محدود وسائل کے باوجود دن رات بڑی جانفشانی سے متاثرین کی مدد کی لیکن بیچاروں کے پاس اپنی کار کردگی اُجاگر کرنے کیلئے ٹک ٹاکرز کی سرکاری فورس نہیں تھی ۔ حکومت کے زیادہ تر افسران نے کام کم کیا اور ٹک ٹاک ویڈیوز زیادہ بنوائیں ۔ ہم نے یہ بھی دیکھا کہ اگر کراچی میں زیادہ بارش کی وجہ سےپانی اکٹھا ہو گیا اور کسی ٹی وی چینل نے یہ سوال اُٹھا دیا کہ سڑکوں پر پانی کیوں کھڑا ہوا تو سندھ حکومت کے سرکاری 'ٹک ٹاکرز اور سائبر فورس نے الیکٹرانک میڈیا پر تعصب کا الزام لگانا شروع کر دیا اور کہا پنجاب کی فکر کرو۔ ایسا لگتا ہے کہ اوپر سے نیچے تک کار کردگی کا معیار صرف اچھی ٹک ٹاک ویڈیو بنانا ہے ۔ چند سال پہلے تک حکومتیں ایکٹنگ کم اور کام زیادہ کرتی تھیں کیونکہ انہوں نے عوام سے ووٹ لینے ہوتے تھے جب سے ووٹ کی عزت نیلام ہوئی ہے اور فارم 47 کا کھڑاک سامنے آیا ہے تو عوام کی بے توقیری بڑھ گئی ہے، اب سیاستدانوں میں زیادہ ووٹ لینے کا مقابلہ نظر نہیں آتا ۔ مقابلہ ہے تو اچھی ٹک ٹاک ویڈیوز بنانے کا مقابلہ ہے ۔ سوشل میڈیا پر مخالفین کے ساتھ گالی گلوچ کرنے کا مقابلہ ہے ۔ ٹک ٹاک حکومتیں بھول رہی ہیں کہ ٹک ٹاک ، فیس بک، انسٹا گرام ، ایکس اور یوٹیوب پر وہ عوام کا مقابلہ نہیں کر سکتیں ۔ عوام کی آواز دبانےکیلئے جب سوشل میڈیا پر پابندیاں لگائی جاتی ہیں تو پھر وہ ہوتا ہے جو پہلے بنگلہ دیش اور پھر نیپال میں ہوا ۔ اخبار ، ٹی وی اور ڈیجیٹل میڈیا پر وہی بیانیہ مقبول ہوتا ہے جس کی بنیاد سچائی پر ہوتی ہے ۔ آج کی ٹک ٹاک حکومتیں سوشل میڈیا پر ڈرامے بازی کے ذریعہ عوام کو مزید بے وقوف نہیں بنا سکتیں۔آپ جتنے مرضی ٹک ٹاکرز خرید لیں عوام سے نہیں جیت سکتے ۔ اپنے آپکو بدل لیں ورنہ آپکے ساتھ وہی ہو سکتا ہے جو نیپال میں ہوا ۔