• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
شرع سود کا اتار چڑھاؤ کسی بھی ملک کی معاشی سرگرمیوں پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے
شرع سود کا اتار چڑھاؤ کسی بھی ملک کی معاشی سرگرمیوں پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے

کسی بھی مُلک میں قائم بینکس ایک مرکزی بینک کی جانب سے (جو پاکستان میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کہلاتا ہے) تشکیل دیے گئے قوانین پر عمل درآمد کے پابند ہوتے ہیں اور یہ وقتاً فوقتاً مرکزی بینک سے قرض بھی وصول کرتے رہتے ہیں۔ 

مرکزی بینک دیگر بینکس کو سُود پر قرض فراہم کرتا ہے اور سُود کی شرح کا تعیّن بھی مرکزی بینک خُود کرتا ہے۔ مُلک کی معیشت کو مدِّنظر رکھتے ہوئے مرکزی بینک کبھی سُود کی شرح بڑھا دیتا ہے، تو کبھی گھٹا دیتا ہے اور کبھی منجمد کردیتا ہے، لیکن شرحِ سُود میں تبدیلی طویل عرصے تک قائم نہیں رہتی۔ 

مرکزی بینک کی جانب سے طے کی گئی شرحِ سُود کو ’’پالیسی ریٹ‘‘ یا ’’انٹرسٹ ریٹ‘‘ کہا جاتا ہے۔ ان سطور کی اشاعت تک پاکستان کا پالیسی ریٹ 11فی صد ہے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی مانیٹری پالیسی کمیٹی نے 30 جولائی 2025ء کو منعقدہ اپنے اجلاس میں شرحِ سُود میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔ 

واضح رہے، شرحِ سُود میں اُتارچڑھائو کا مُلکی معیشت پر گہرا اثر مرتب ہوتا ہے۔ جب یہ بڑھتی ہے، تو کاروباری طبقہ بھاری بھرکم سُود کی وجہ سے قرض لینے سے کتراتا ہے، جس سے معاشی سرگرمیاں ماند پڑنےلگتی ہیں۔ اس کے برعکس جب انٹرسٹ ریٹ کم ہوتا ہے، تو لوگ قرض لینے کی جانب راغب ہوتے ہیں، جس سے معاشی سرگرمیوں میں اضافہ ہوتا ہے۔

غلط فہمیاں

عام طور پر بینک سے قرض لینے کے خواہش مند افراد یہ سمجھتے ہیں کہ جب وہ کسی بینک سے قرضہ لیں گے، تو بینک مُلک میں رائج پالیسی ریٹ کی مناسبت سے سُود وصول کرے گا۔ ایسے افراد شدید غلط فہمی کا شکار ہیں۔ یاد رہے، اگر کسی مقامی بینک نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان سے 11 فی صد کی شرحِ سُود (موجودہ پالیسی ریٹ) پر قرض حاصل کیا ہے، تو وہ بینک اپنے گاہک کو اسی شرحِ سُود پر کبھی بھی قرض فراہم نہیں کرے گا، بلکہ وہ 11فی صد پالیسی ریٹ پر اپنا منافع رکھ کر قرض جاری کرے گا۔ 

یعنی بینک اپنے کسٹمر سے کم از کم 14 سے 15 فی صد کی شرح سے سُود وصول کرے گا۔ اسی طرح اگر کسی فرد نے بینک سے 19.5 فی صد کی شرحِ سُود پر قرض حاصل کیا تھا، تو وہ اس خوش فہمی میں ہرگز نہ رہے کہ پالیسی ریٹ میں کمی سے اس کے قرض کی شرحِ سُود بھی کم ہوجائے گی، بلکہ اس کمی کا فائدہ صرف انہی لوگوں کو ہوگا کہ جو نئے پالیسی ریٹ کے اجرا کے بعد بینک سے قرض حاصل کریں گے۔

پالیسی ریٹ میں اضافے کے معاشی سرگرمیوں پر اثرات

یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ آخر حکومتیں پالیسی ریٹ میں اضافہ کیوں کرتی ہیں؟ اس ضمن میں معاشی ماہرین کا ماننا ہے کہ پالیسی ریٹ یا شرحِ سُود بڑھانے کا مقصد منہگائی کم کرنا ہوتا ہے، جب کہ درحقیقت منہگائی کم کرنے کا یہ طریقہ نہایت تکلیف دہ ہے، کیوں کہ اس طرح عوام کی کثیر تعداد پریشانی میں مبتلاہوجاتی ہے۔ عام طور پرپالیسی ریٹ بڑھنے کے منفی اثرات ہی سامنے آتے ہیں، جن کی تفصیل کچھ یوں ہے:

1۔ پالیسی ریٹ میں اضافے کے باعث بینکس بھی اپنی شرحِ سُود میں اضافہ کردیتے ہیں۔ ایسی صُورت میں بینکس کے قرضے منہگے ہوجاتے ہیں اور لوگوں کےلیےقرض کا حصول مشکل ہوجاتا ہے۔ یوں بہت سے لوگوں کے لیے اپنی معاشی ضروریات پوری کرنا دشوار ہوجاتا ہے اور اس کے نتیجے میں معاشی سرگرمیاں بھی محدود ہو جاتی ہیں۔

2۔ جب کمپنیز بھاری شرحِ سُود پر قرض حاصل کرتی ہیں، تو اس کے نتیجے میں اُنہیں اپنی مصنوعات یا خدمات کو منہگا کرنا پڑتا ہے اور اگر کمپنیز ایسا نہ کریں، تو اُن کے لیے قرض واپس کرنا ناممکن ہوجاتا ہے۔ نتیجتاً، مُلک میں افراطِ زر میں اضافہ ہوتا ہے۔

3۔ بلند پالیسی ریٹ روزگار کے مواقع پر بھی منفی اثرات مرتّب کرتا ہے۔ انٹرسٹ ریٹ میں اضافے کے نتیجے میں کمپنیز اپنا سرمایہ بچانے کے لیے نئے ملازمین بھرتی نہیں کرتیں یا پھر پہلے سے موجود ملازمین کی تعداد بھی کم کردیتی ہیں۔ نیز، بہت سے ادارے اپنے ملازمین کی تن خواہ بڑھانے سے انکار یا ان کی سہولتوں میں کمی کر دیتے ہیں۔

4۔ شرحِ سُود میں اضافے کی صُورت بہت سے سرمایہ کار مستقبل کے اندیشوں کے پیشِ نظر کسی کاروبار میں سرمایہ کاری کرنے سے ہچکچاتے ہیں، کیوں انہیں آئندہ دنوں مزید منہگائی ہونے کا دھڑکا لگا رہتا ہے اور یہ خوف انہیں کہیں بھی سرمایہ کاری کرنے سے روکتا ہے۔

5۔ پالیسی ریٹ زیادہ ہونے کی صُورت میں، عوام مجموعی طور پر کنجوس ہوجاتے ہیں اور ہر فرد بچت کے خبط میں مبتلا رہتا ہے۔ جب عوام خریداری کم کرتے ہیں، تو دُکانوں اور کمپنیز کی سیل بھی گرجاتی ہے اور یہ عمل بےروزگاری اور کاروبار کی بندش کا پیش خیمہ ثابت ہوتا ہے۔

6۔ جب پالیسی ریٹ بڑھتا ہے، تو بینکس بھی اپنی ڈپازٹ اسکیمز کا منافع بڑھا دیتے ہیں۔ اس صُورتِ حال میں لوگ اپنے سرمائے کا رُخ تجارت و صنعت سے موڑ کر بینکس کی جانب کردیتے ہیں اور کاروبار کرنے کی بجائے گھر بیٹھ کر منافع کھانے کے عادی ہو جاتے ہیں۔ یہ صورتِ حال بھی مُلک میں صنعتوں کی بندش اور روزگار کے مواقع میں کمی کا سبب بنتی ہے۔

7۔ بلند پالیسی ریٹ مقامی کرنسی کی قدرپر بھی اثرانداز ہوتا ہے۔ جب کسی مُلک کا پالیسی ریٹ بڑھتا ہے، تو بیرونی سرمایہ کار زیادہ منافعے کی خاطر اس مُلک میں سرمایہ کاری کے لیے آتے ہیں، جس سے مقامی کرنسی کی طلب اور قدر میں اضافہ ہوجاتا ہے۔

شرحِ سُود میں کمی کے معیشت پر اثرات

پالیسی ریٹ یا شرحِ سُود میں کمی کے مجموعی طور پر مثبت اثرات سامنے آتے ہیں، جن کی تفصیل کچھ یوں ہے:

1۔ جب پالیسی ریٹ کم ہوتا ہے، تو لوگ زیادہ تعداد میں قرض حاصل کر کے کاروبار یا دیگر معاشی سرگرمیوں (گھر کی تعمیر یا خریداری، گاڑی کی خریداری وغیرہ) میں سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ اس صُورتِ حال میں مُلک میں سرمائے کی روانی بڑھ جاتی ہے، جو مُلکی معیشت کے لیے اچّھا رجحان ہے۔

2۔ لوگ زیادہ خریداری کرتے ہیں، جس سے مُلک میں معاشی سرگرمیاں تیز ہوجاتی ہیں اور روزگار کے زیادہ مواقع پیدا ہوتے ہیں۔

3۔ جب قرض پر شرحِ سُود کم ہو جاتی ہے، تو مُلک میں نئےکارخانےقائم ہوتے ہیں اور لوگوں کو روزگار کے زیادہ سے زیادہ مواقع ملتے ہیں۔

4۔ جب کسی مُلک میں معاشی سرگرمیاں تیز ہوتی ہیں، تو بیرونی سرمایہ کار بھی مقامی مارکیٹ کا رُخ کرتے ہیں، جس کا فائدہ مقامی آبادی کے ساتھ ساتھ بیرونی سرمایہ کاروں کو بھی ہوتا ہے۔