قطر میں حماس کے مذاکراتی وفد پر اسرائیلی حملے نے مشرقِ وسطیٰ، خاص طور پر غزہ کی صُورتِ حال کو مزید پیچیدہ کر دیا۔ نیز، قطر کا بین الاقوامی ثالثی کردار بھی بہت سے سوالات کی زد میں آگیا۔ گزشتہ دو برسوں سے حماس، اسرائیل مذاکرات قطر کی ثالثی اور امریکی سرپرستی میں رینگ رہے تھے اور اب اِس حملے کے بعد مذاکرات میں کام یابی کے امکانات مزید کم ہوگئے ہیں۔ حماس نے کہا کہ اسرائیلی حملے میں اُس کی اعلیٰ قیادت محفوظ رہی، لیکن دیگر پانچ ارکان جاں بحق ہوئے، جن میں ایک قطری اہل کار بھی شامل تھا۔ حماس نے مذاکرات کاروں پر حملے کو کُھلی اشتعال انگیزی قرار دیا۔
دوسری طرف، غزہ میں اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں65 ہزار شہری جاں بحق ہوچُکے ہیں، جب کہ اسرائیلی بربریت نے وہاں بھوک کی صُورت ایک ایسے المیے کو جنم دیا ہے، جس کی مثال مشکل ہی ملے گی اور جسے پوری دنیا مل کر بھی روکنے میں ناکام ہے۔ امریکا، اسرائیل کا سب سے قریبی اور مضبوط اتحادی ہے، تاہم صدر ٹرمپ نے قطر حملے پر ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ اِس حملے کے ہر پہلو سے ناخوش ہیں۔
قطر، مِڈل ایسٹ میں امریکا کا سب سے قریبی اتحادی مانا جاتا ہے، جہاں امریکا کا بیرونِ مُلک سب سے بڑا ملٹری بیس بھی ہے۔ یہیں سے وہ مشرقِ وسطیٰ، بلکہ مغربی ایشیا تک اپنی کارروائیاں کرتا ہے۔ صدر ٹرمپ نے کہا کہ اِس حملے سے مذاکرات پر اچھے اثرات مرتّب نہیں ہوں گے اور یہ کہ اِس سے امریکا اور اسرائیل، دونوں کے اہداف کی جانب بڑھنے کے عمل کو نقصان پہنچا۔ قطر نے اپنے ردِعمل میں کہا کہ اسرائیل ریاستی دہشت گردی کا مرتکب ہوا اور یہ کہ اس کے خلاف قانونی اور سفارتی اقدامات کیے جائیں گے۔
تاہم، قطر اپنے مذاکراتی کردار سے پیچھے نہیں ہٹے گا۔ نیز، قطری وزیرِ اعظم نے یہ بھی کہا کہ اُن کا مُلک اِس حملے کا جواب دینے کا حق محفوظ رکھتا ہے۔ پاکستان کے وزیرِ اعظم، شہباز شریف نے نہ صرف حملے کی شدید الفاظ میں مذمّت کی، بلکہ ایک اعلیٰ سطحی وفد کے ساتھ قطر کا دورہ بھی کیا، جس کے دَوران امیرِ قطر، شیخ تمیم بن حمد الثانی کو پاکستان کی جانب سے ہر ممکن تعاون کا یقین دِلایا۔
اُنہوں نے اِس حملے کو ایک مجرمانہ فعل اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا۔علاوہ ازیں، دنیا کے تمام اہم ممالک نے بھی، جن میں روس، چین، برطانیہ، فرانس اور دیگر ممالک شامل ہیں، اِس حملے کی مذمّت کرتے ہوئے اسرائیلی رویّے پر شدید مایوسی کا اظہار کیا کہ اِس سے امن کی کوششیں مزید کم زور ہوگئیں۔
حماس کے وفد پر9 ستمبر کو اُس وقت حملہ کیا گیا، جب وفد کے ارکان بات چیت کے اگلے مرحلے کی تیاری کر رہے تھے۔ عینی شاہدین کے مطابق، دس زور دار دھماکے سُنائی دیئے۔ بعد میں اسرائیل کی آئی ڈی ایف نے بتایا کہ یہ میزائل حملہ تھا۔ امریکی صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ اُنہیں اسرائیل نے اِس حملے سے متعلق بہت تاخیر سے بتایا اور جب اُنہوں نے اپنے مشیر کو قطر کو اطلاع دینے کا کہا، تو اُس وقت حملہ شروع ہوچُکا تھا۔
واضح رہے، اسرائیل کے اِس نوعیت کے حملے گزشتہ دو برسوں میں عام رہے، جن میں وہ بین الاقوامی سرحدوں کی کُھلی خلاف ورزی کا مرتکب ہوا۔ حماس کے سربراہ، اسماعیل ہانیہ اُس وقت ایک اسرائیلی حملے کا نشانہ بنے، جب وہ تہران کے ایک ریسٹ ہاؤس میں مقیم تھے۔ اس کے بعد حماس کی تمام ٹاپ لیڈر شپ ایسے ہی حملوں کے ذریعے نشانہ بنائی گئی۔ نیز، ایرانی حمایت یافتہ ملیشیا، حزب اللہ بھی اسرائیلی جارحیت کی زَد میں رہی، جو مشرقِ وسطیٰ کی سب سے طاقت وَر ملیشیا اور لبنان کی اصل حُکم ران تھی۔
حزب اللہ کے سربراہ، حسن نصراللہ بیروت کے ایک فلیٹ میں ایسے ہی ایک اسرائیلی حملے میں نشانہ بنے۔ ایران کے آرمی چیف اور پاس دارانِ انقلاب کے ٹاپ کمانڈرز بارہ روزہ ایران، اسرائیل جنگ میں اسرائیل کی ایسی ہی کارروائیوں میں ہلاک ہوئے۔ پھر حال ہی میں یمن کے حوثی باغیوں کے وزیرِ اعظم ایک ڈرون حملے میں مارے گئے۔ یاد رہے کہ دو، تین سال قبل ایران کے ٹاپ ایٹمی سائنس دان کو تہران کی سڑک پر نشانہ بنایا گیا تھا۔قطر پر حملے سے ایک روز قبل اسرائیل نے شام کے تین شہروں میں اہداف کو نشانہ بنایا۔
اِس سب سے ظاہر ہوتا ہے کہ کم ازکم مشرقِ وسطیٰ کی حد تک تو اسرائیل کو جارحیت کی کُھلی چُھوٹ ملی ہوئی ہے۔ وہ ایک بے لگام یا بدمست ہاتھی کی مانند ہر طرف تباہی مچا رہا ہے اور کوئی اُس کی راہ روکنے والا نہیں۔ اقوامِ متحدہ اور دوسرے عالمی ادارے محض بیانات جاری کرنے تک محدود ہیں، جب کہ بڑی طاقتیں بھی صرف اجلاس ہی کر رہی ہیں اور اسرائیل کو روکنے کی کوئی عملی کوشش نظر نہیں آتی۔
دنیا بَھر میں فلسطینیوں کے حق میں مظاہرے ہوتے ہیں، خود مغربی میڈیا بھی اسرائیل کے اکثر اقدامات پر کڑی تنقید کرتا ہے، جب کہ صدر ٹرمپ بھی کئی مواقع پر نیتن یاہو کے فیصلوں پر ناگواری کا اظہار کرچُکے ہیں، لیکن عملاً کچھ نہیں ہوتا۔ اسرائیل جب، جہاں اور جس پر چاہتا ہے، جارحیت کر گزرتا ہے۔ اگر غزہ میں جاں بحق ہونے والے صحافیوں کی تعداد ہی دیکھ لی جائے، تو اندازہ ہوجائے گا کہ میڈیا کے تبصروں اور عالمی رہنماؤں کے احتجاج کو اسرائیل کتنی اہمیت دیتا ہے۔
چھوٹے ممالک تو ایک طرف رہے، بڑی طاقتیں بھی، جن کے پاس بڑی بڑی فوجیں اور جدید ترین ہتھیار ہیں، اسرائیل کا ہاتھ روکنے کو تیار نہیں۔ حیرت تو اِس امر پر ہوتی ہے کہ اِن میں سے کوئی بڑی طاقت مذاکراتی عمل میں شامل ہونے پر بھی آمادہ نہیں۔ ایسی صُورتِ حال میں جو ناقدین، مبصّرین یا سیاسی رہنما جذباتی ہو کر چھوٹے ممالک سے توقّع کرتے ہیں کہ وہ کچھ کریں، اِس پر اُنھیں خود ہی سوچ لینا چاہیے کہ اگر اِس طرح کا کوئی اقدام کسی جانب سے کیا بھی گیا، تو اُس کے کیا نتائج ہوں گے۔
قطر، مغربی ایشیا، خاص طور پر مشرقِ وسطیٰ کا رقبے اور آبادی کے لحاظ سے تو ایک چھوٹا سا مُلک ہے، لیکن یہ عالمی اور علاقائی طور پر ایک اہم کھلاڑی ہے۔ اس کی آبادی 29لاکھ کے قریب ہے، جس میں سے چالیس فی صد تارکینِ وطن ہیں، جب کہ وہاں چار لاکھ کے قریب پاکستانی بھی رہتے ہیں۔ قطر پر تمیم خاندان کی حکومت ہے اور اِن دنوں شیخ تمیم بن حمدالثانی وہاں کے حُکم ران ہیں۔ایل این جی اور گیس کی پیداوار کے لحاظ سے قطر کا دنیا میں تیسرا نمر ہے، جب کہ وہ تیل پیدا کرنے والا بھی ایک اہم مُلک ہے۔
اس کی زمینی سرحدیں صرف سعودی عرب سے ملتی ہیں اور باقی تین اطراف بحیرۂ عرب ہے، اِسی لیے وہاں سے ہر وقت تیل، ایل این جی اور گیس کے کنٹینرز کی آمد و رفت جاری رہتی ہے۔ قطر ہر لحاظ سے امیر ممالک کی فہرست میں شامل ہے، لیکن جس چیز نے اُسے عالمی نقشے پر اہم مقام عطا کیا، وہ اس کا عالمی ثالثی کردار ہے۔ حماس، اسرائیل مذاکرات میں وہ بنیادی ثالث ہے اور حماس رہنما، اسرائیلی وفد سے اس کے دارالحکومت، دوحا میں ملاقات کرتے ہیں۔
اِس سے قبل امریکا اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات بھی دوحا ہی میں ہوئے تھے اور یہیں وہ معاہدہ طے پایا تھا، جسے’’دوحا معاہدہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ پاکستان کے قطر سے انتہائی قریبی اور دوستانہ تعلقات ہیں۔ دونوں ہر مشکل وقت میں ایک دوسرے کا ساتھ دیتے چلے آ رہے ہیں۔ وہ پاکستان کو ایل این جی، گیس اور تیل کے علاوہ مالیاتی امداد بھی فراہم کرتا ہے۔ مشرقِ وسطیٰ کا واحد اور اہم عالمی میڈیا ہاؤس، الجزیرہ کا ہیڈ کوارٹر دوحا میں ہے۔ دو ماہ کے دَوران دو بار قطر کی سالمیت کی خلاف ورزی کی گئی۔ اسرائیل، ایران جنگ میں ایران نے قطر میں موجود امریکی فوجی اڈّے پر میزائل حملہ کیا تھا۔
اسرائیلی حملے کا ہدف دراصل دوحا مذاکرات تھے اور معاملات طے پا جانے سے متعلق جو چھوٹی موٹی اُمید کی کرن تھی، اِس حملے کے بعد فی الحال تو وہ لو بہت مدہم پڑ گئی ہے، جس پر خود امریکا نے بھی مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ دوسرے الفاظ میں، اِس حملے کے نتیجے میں جہاں قطر کے ثالثی کردار اور مذاکرات کاروں کے حفاظتی معاملات زیرِ بحث آرہے ہیں، وہیں امریکا کے عالمی اعتماد کو بھی دھچکا پہنچا ہے۔ ایک خبر کے مطابق ایران، امریکا سے نیوکلیئر ڈیل پر مذاکرات بحالی پر راضی ہوگیا ہے، مگر سوال یہ ہے کہ یہ بات چیت کہاں ہوگی؟
پہلے تو یہ مذاکرات ریاض میں ہوئے تھے، لیکن قطر میں حماس وفد پر حملے کے بعد جو ماحول پیدا ہوا ہے، اُس پس منظر میں اب مذاکرات کے لیے مقام کا تعیّن آسان نہیں ہوگا۔ یوکرین جنگ پر ٹرمپ اور پیوٹن کے الاسکا مذاکرات کا حشر بھی سب دیکھ چُکے ہیں، جہاں اِتنی بڑی طاقتیں بھی امن کا درس دینے کے باوجود دنیا کو سیز فائر کی خوش خبری نہیں دے سکتیں، تو پھر کسی اور مُلک سے کیا توقّع کی جاسکتی ہے۔
بظاہر تو یوکرین جنگ، غزہ اور کُھلی اسرائیلی جارحیت میں کوئی مماثلت نظر نہیں آتی، تاہم جو سوال اہم ہے، وہ یہ کہ کیا بین الاقوامی قوانین اور جو نظام دوسری عالمی جنگ کے بعد قائم کیا گیا تھا، جو وعدے اور معاہدے ہوئے تھے کہ آیندہ باہمی تنازعات جنگ کی شکل اختیار نہیں کریں گے، اُن سب کا کیا بنا؟ وہ سب وعدے اور معاہدے بَھک سے اُڑتے نظر آتے ہیں۔ اِس امر کی اشد ضرورت ہے کہ بڑی طاقتیں، جن میں پانچوں ویٹو پاورز بھی شامل ہوں، ایک جگہ بیٹھیں اور مفادات کی بجائے امن کی طرف بڑھیں ۔
قطر جیسے مُلک، جو نہ صرف اپنے تیل اور گیس ذخائر کے لیے دنیا کے لیے اہم ہیں، بلکہ اپنے ثالثی کردار کے سبب بھی عالمی برادری میں نمایاں مقام کے حامل ہیں،تو جب اُن پر بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے حملے کیے جائیں گے، تو پھر کون سا مُلک تنازعات کی صُورت میں امن یا ثالثی کے لیے اپنی سرزمین پیش کرے گا۔ کون اپنے عوام اور املاک کو دوسروں کی خاطر خطرے میں ڈالنا پسند کرے گا۔ پھر یہ بھی یاد رہنا چاہیے کہ قطر کے اِس عالمی ثالثی کردار میں امریکی سفارت کاری کی بھی ایک خاص اہمیت ہے۔
اب امریکا ایک طرف اسرائیل کا اتحادی ہے، تو دوسری طرف قطر بھی اُس کا دوست ہے، جہاں اُس نے مشرقِ وسطیٰ میں سب سے جدید دفاعی نظام نصب کیا ہے۔ اب عالمی امن کے لیے دنیا کی دیگر بڑی طاقتوں کو سامنے آنا ہوگا، کیوں کہ امریکا کے بہت سے اقدامات نے اُس کے غیر جانب داری کو مشکوک بنا دیا ہے۔ صدر ٹرمپ امن و امان کے لیے خواہ کتنے ہی مخلص کیوں نہ ہوں، مگر امریکا کے ہر قدم کو شک اور سازش کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
مخالفین اِس سے فائدہ اُٹھا کر اسے پراپیگنڈے اور اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتے ہیں، اسی لیے اگر امن یا سیز فائر کی کوئی کوشش کی بھی جائے، تو وہ بے سود ہوجاتی ہے۔ صدر پیوٹن مشرقِ وسطیٰ میں شام کے معاملے میں بہت سرگرم رہے اور اُنھوں نے بشار الاسد کی کُھل کر فوجی مدد کی۔ شامی شہریوں پر کُھلے عام بم باری بھی کرتے رہے۔ روس نے بشار کو تخت پر تو بٹھایا، لیکن مُلک میں امن کے لیے متحارب گروہوں میں مصالحت نہیں کروائی بلکہ اپنے مفاد ہی کو ترجیح دی، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج بشار اقتدار میں ہے اور نہ ہی روس کی شام میں وہ طاقت رہی۔
پیوٹن کا یہی حال یوکرین پر حملے کے بعد رہا۔45 ماہ سے یوکرین جیسے ایک چھوٹے سے مُلک پر حملہ آور ہیں اور کسی پُرامن حل کے لیے بھی تیار نہیں۔ چین، عالمی امن کے لیے بہت بہتر کردار ادا کرتا ہے۔ اسی نے ایران اور سعودی عرب کے درمیان تقریباً پندرہ سال کی رنجش کے بعد سفارتی تعلقات قائم کروائے۔ وہ ہمیشہ اپنے تنازعات میں فوجی کارروائی سے گریز کرتا ہے۔ تائیوان کی مثال سامنے ہے، جو اس کا حصّہ ہے، مگر چین اُس پر بھی کوئی زور زبردستی نہیں کرتا۔ صدر شی جن پنگ ایک سلجھے ہوئے سیاسی مدبّر کا کردار ادا کر رہے ہیں، اِس لیے اُن سے بڑی اُمیدیں وابستہ ہیں۔
اُنہوں نے افغان طالبان پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کیا تاکہ وہ افغان سرزمین دہشت گردی کے لیے استعمال نہ کریں۔ وہ تو پاکستانی قیادت کو بھی بھارت سے تعلقات معمول پر لانے کے مشورے دیتے رہے ہیں تاکہ جنوبی ایشیا میں ترقّی کا ماحول بہتر ہوسکے۔پھر یہ کہ چین کی اسرائیل سے دوستی ہے اور عرب دنیا میں بھی اسے عزّت واحترام حاصل ہے۔ اس نے مختلف ممالک میں بھاری سرمایہ کاری بھی کر رکھی ہے۔ اِس تناظر میں وہ امن کے لیے مؤثر کردار ادا کرسکتا ہے، جس میں یورپ کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے۔
آخر ایران سے نیوکلیئر ڈیل کے لیے امریکا، چین، روس، یورپ اور برطانیہ، سب ہی نے مل کر مذاکرات کیے اور صدر اوباما کے دَور میں وہ ڈیل ہو بھی گئی تھی۔ مشرقِ وسطیٰ کے تنازعات کو پھیلنے سے روکنے کے لیے بین الاقوامی سطح پر کوششیں بے حد ضروری ہوچُکی ہیں۔ غزہ پکار رہا ہے کہ کوئی مدد کے لیے آگے بڑھے۔ غزہ میں قحط ہے، جو لاکھوں لوگوں کو لپیٹ میں لے چُکا ہے۔ آخر ان سسکتے انسانوں کو دنیا کیسے بے بسی کی زندگی اور دردناک موت کے حوالے کرسکتی ہے؟