• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جسٹس محمد احسن کو بلائیں مگر احتیاط لازم ہے!

ڈنمارک سپریم کورٹ کے پہلے مسلمان اور پاکستانی جج، مسٹر جسٹس محمد احسن کی کہانی تو آدھے ادھورے کالم میں سمیٹی جاسکتی تھی کہ وہ بولنے سے زیادہ سننے پر یقین رکھتے ہیں لیکن ڈنمارک سپریم کورٹ کی داستان، کوشش کے باوجود ، دو کالموں کے کوزے میں بند نہیں کی جاسکتی۔ میں ججوں کے انتخاب اور عدالت کے طریقِ سماعت کے بارے میں بتا چکا ہوں۔ آج چیف جسٹس کے انتخاب وتقرر کے دلچسپ نظام کی بات کرتے ہیں۔ سپریم کورٹ میں تعینات ہو نے والا ہر جج ستّرسال کی عمر تک اپنے منصب پر برقرار رہتا ہے۔ چیف جسٹس کو وہاں صدر (President) کہا جاتا ہے۔ صدرِ سپریم کورٹ یعنی چیف جسٹس کے انتخاب وتقرر میں حکومت، کسی اعلی عہدیدار، ادارے، حتٰی کہ بادشاہ کا بھی کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔ 1861ءمیں ایک روایت قائم ہوئی جسے 1915ءمیں ایک واضح اور متعین شکل دے دی گئی۔ چیف جسٹس کے ستّر سال کی عمر تک پہنچنے، یعنی اُس کی ریٹائرمنٹ سے تین چار ماہ قبل اٹھارہ رُکنی سپریم کورٹ کے سترہ جج صاحبان میں نئے چیف جسٹس کے انتخاب پر مشاورت شروع ہوجاتی ہے۔ خاص طورپر تین چار سینئر جج صاحبان کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے ہر جج اپنی رائے مرتب کرتا ہے۔ فیصلہ اتفاق رائے سے نہ ہو تو کثرت رائے سے ہوجاتا ہے۔ سو جج صاحبان خود اپنا چیف جسٹس چُن لیتے ہیں۔ چیف جسٹس کا سب سے سینئر ہونا ضروری نہیں۔ اس امر کا خیال رکھا جاتا ہے کہ نئے چیف جسٹس کے پاس خدمات سرانجام دینے کے لئے معقول وقت پڑا ہو۔ چُنے گئے چیف جسٹس کا نام رسمی طورپر وزارتِ انصاف کو بھجوا دیاجاتا ہے جو ’دربارِ شاہی‘ کو ارسال کردیتی ہے اور شاہ اس کی تقرری کا فرمان جاری کردیتا ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ سپریم کورٹ ازخود، عوامی آگاہی کیلئے، اُسی دن نئے چیف جسٹس کے نام کا اعلان کردیتی ہے، جس دِن یہ نام وزارتِ انصاف کو بھیجا جاتا ہے۔ ایسی کوئی نظیر نہیں ملتی کہ کسی بھی سطح پر جج صاحبان کے فیصلے سے انحراف کیاگیا ہو۔ ایسے شواہد بھی نہیں ملے کہ اختلاف کرنے والے جج صاحبان اپنے سامنے والی شاہرہ پر کوئی دھوبی گھاٹ بنائیں، اپنی داغدار عبائیں دھوئیں اور سوکھنے کیلئے سپریم کورٹ کی دیواروں پر ٹانگ دیں۔ مجھے کسی ایسے وقوعے کا سراغ بھی نہیں ملا کہ آئینی وقانونی نکات کی تشریح وتوضیح کے بجائے وہ ایک دوسرے کے چہرے مسخ کرنے کیلئے، کسی ذاتی زخم یا پرخاش کی بنا پر، لُغتِ کوچہ وبازار سے ’دشنام تلاشی‘ کریں اور باہمی خط وکتابت کا سلسلہ شروع کردیں۔ ایسا ہوا ہوتا تو 1661سے آج تک 364 سالوں میں ’’مکتوباتِ منصفانِ ڈنمارک‘‘ کی کئی ضخیم جلدیں منظر عام پر آ چکی ہوتیں۔ ’ورلڈ جسٹس پروگرام‘ کی رپورٹ کے مطابق، سکنڈے نیویا کے چار ممالک ڈنمارک، ناروے، سویڈن اور فن لینڈ بالترتیب پہلے، دوسرے، تیسرے اور چوتھے نمبر پر ہیں۔ ’’قانون کی حکمرانی‘‘ کے حوالے سے پہلا اسلامی ملک ’’متحدہ عرب امارات‘‘ ہے، جو 39ویں نمبر پہ آتا ہے۔ پاکستان، انتہائی فعال، متحرک اور آتش مزاج عدلیہ رکھنے کے باوجود 129ویں نمبر پر ہے۔ مجھے تو یہ ’’ورلڈ جسٹس پروگرام‘‘ کی سازش لگتی ہے ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ قازقستان، انڈونیشیا، تیونس، ازبکستان، الجیریا، مراکش، لبنان، ترکی، نائیجیریا، بنگلہ دیش اور ایران جیسے ممالک کا گراف ہم سے بہتر ہو۔ ممکن ہو تو خطوط نویسی پر کامل دسترس رکھنے والے کسی جج کو ’’ورلڈ جسٹس پروگرام‘‘ کے نام بھی ایک بارُود پاش مکتوب لکھنا چاہیے۔ نہایت ہی افسوس ناک امر یہ ہے کہ ڈنمارک کے جج صاحبان میں سے کسی نے ’رفاہِ عامہ‘ کے حوالے سے عدل وانصاف کی ایسی درخشاں مثال قائم نہیں کی کہ کئی کئی منزلہ رہائشی ٹاور زمیں بوس کرا دیے ہوں، پانی کی قلت دور کرنے کیلئے ڈیمز تعمیر کرنے کا بیڑا اٹھالیا ہو، ایک پروان چڑھتے ہسپتال کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ہو، شہر میں ٹرام چلانے کے لئے ہلکان ہو رہا ہو یا کسی پرائیویٹ ہائوسنگ سوسائٹی کے معاملات میں رخنہ اندازی کی ہو۔ ڈنمارک عدالت کی کمزوری اور بے چارگی کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ وہ کسی وزیراعظم کو پھانسی چڑھانا یا منصب سے ہٹانا تو بہت دور کی بات ہے، اُسے عدالت میں طلب تک نہیں کرسکی۔ سمجھ میں نہیں آ رہا یہ قانون کی کیسی حکمرانی ہے جس نے ڈنمارک کو سب سے اونچی مسند پر بٹھا دیا ہے؟

میرے ایک سوال پر جسٹس محمد احسن نے بتایا کہ وہ آخری بار 2015ءمیں اپنے والد کی میّت لے کر پاکستان آئے تھے۔ رحمت خان نے اپنے خاندان کی فصل کو ڈنمارک کی کھیتی میں پروان چڑھتے دیکھا لیکن زندگی کے آخری لمحات میں وصیّت کی کہ مجھے کوپن ہیگن میں نہیں، میرے گائوں دھنّی میں دفن کرنا۔ جسٹس صاحب کو اپنے وطن آئے اب دس برس ہونے کو ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ہماری سپریم کورٹ اُنہیں پاکستان آنے کی دعوت دے۔ اُنکی عزت افزائی کے لئے تقریبات کا اہتمام کرے۔ انہیں سمجھائے کہ حقیقی اور بے لاگ انصاف کے تقاضے کیا ہیں؟ اُنہیں بتائے کہ دورِ حاضر کے روشن خیال اور تَر دماغ جج صاحبان فیصلے ہی نہیں، خطوط بھی لکھتے ہیں تاکہ ججوں کا باہمی دوستانہ رشتہ مضبوط رہے۔ یہ بھی گوش گزار کیاجائے کہ سائیکلوں یا بسوں پہ عدالت جانا، عدالتی عظمت ووقار کی توہین ہے۔ دبے لفظوں میں یہ بھی بتادینا چاہیے کہ تنخواہ سے پچاس فی صد ٹیکس کٹوا دینا کوئی فخر کی بات نہیں۔ ہمارے ہاں اگر چیف جسٹس کی صرف پنشن ہی 23لاکھ 90ہزار روپے ہے تو آپ لوگوں کو بھی اپنی معیشت بہتر بنانے پر توجہ دینی چاہیے۔ یہ بھی کوئی اعزاز کی بات نہیں کہ ڈنمارک کی سپریم کورٹ کا سارا عملہ صرف 60افراد پر مشتمل ہے۔ ہمارے ہاں تو اتنے اہلکار ایک جج کو میّسر ہیں۔ کسی اپیل کا فیصلہ صرف سات دنوں میں کردینا بھی قرینِ انصاف نہیں۔ اس سے زیرِالتوا مقدمات کی نوبت ہی نہیں آتی۔ سپریم کورٹ کے باہر سائلوں کی میلوں لمبی قطاریں نہ لگی ہوں اور عدالت کے تہہ خانے ہزاروں زیرالتوا مقدمات کی فائلوں سے نہ بھرے ہوں تو عدالت کا رعب ودبدبہ خاک میں مل جاتا ہے۔ اور یہ تو انتہائی معیوب حرکت ہے کہ جج کے پاس کوئی ذاتی حاجب یا نائب قاصد تک نہ ہو اور وہ اپنے لئے چائے بھی خود بنا کر لائے۔ سب سے اہم بات یہ کہ ڈنمارک کی عدالت ’’ریاست‘‘ کے دوسرے دو ستونوں، انتظامیہ اور مقننہ کو اپنا کھلا دشمن خیال کرتے ہوئے ہمیشہ انہیں نیزے کی نوک پر رکھے اور اُنکے اقدامات کو گھاس کے تنکے جیسی اہمیت بھی نہ دیا کرے۔

مناسب ہوگا کہ معزز مہمان کے لئے ایک خصوصی بریفنگ کا اہتمام کیا جائے جس میں عالی مرتبت ریٹائرڈ جج صاحبان، جسٹس ارشاد حسن خان، جسٹس ثاقب نثار، جسٹس آصف سعید کھوسہ، جسٹس گلزار احمد، جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس اعجازالاحسن کو خاص طورپر مدعو کیاجائے تاکہ وہ ’’قانون کی حکمرانی‘‘ کے موضوع پر دانش وحکمت کے موتی بکھیریں۔ ان ساری تقریبات میں اس امر کا اہتمام ضروری ہے کہ جسٹس محمد احسن کو بولنے کا موقع نہ دیا جائے۔ مبادا وہ کوئی ایسا وائرس نہ چھوڑ جائیں جو ہماری صاف شفاف عدالتی فضا میں ماحولیاتی آلودگی کا سبب بنے اور ہماری عدلیہ بھی ڈنمارک کی عدلیہ جیسی ہوجائے۔کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم محض’ ورلڈ جسٹس پروگرام‘ کا زینہ چڑھنے کے شوق میں ڈنمارک کی 364سالہ روایات کا تعاقب کرتے ہوئے اپنی 78سالہ درخشاں روایات کو بھی خاک میں ملا دیں۔

تازہ ترین