بہت سی چیزیں ایسی ہیں جنہیں اگر مسلسل دہرایا جائے تو وقت گزرنےکیساتھ عادت بن جاتی ہیں۔ اگر ایسی عادات کی جڑیں اقدار اور اصولوں میں پیوست ہوں تو یہ اس اچھائی کی آبیاری کرتی ہیں جو تیزی سے معدوم ہوتی جارہی ہیں۔ لیکن اگر انکی جڑیں دھوکا دہی اور جھوٹ میں گڑی ہوں تو یہ معاشرے کیلئے عذاب ثابت ہوتی ہیں۔ یہ اکثر عدم برداشت کی راہ دکھاتی ہیں جو انحطاط، گراوٹ اور تشددکا باعث بنتا ہے۔
مخصوص حالات میں انسان اپنے ذہن کی بات کہنا چاہتا ہے لیکن حد بندیاں راستے میں رکاوٹ بنتی ہیں اور ممکنہ انسانی ترقی کے راستے کو محدود کر دیتی ہیں۔ نتیجتاً انسان خود ساختہ محدود دائرے میں کام کرنے پر مجبور ہے۔ اگر پابندیوں کی جگہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا اصول لاگو ہوجائے تو پھر ایسی نسلیں ناپید ہونے کے خطرے سے دوچار ہو سکتی ہیں۔ ایسے لوگ اکثر ملتے ہیں جو دو وقت کی روٹی کیلئے ہاتھ پائوں مار رہے ہوتے ہیں۔ یہ بدقسمتی سہی ، لیکن جس دنیا میں ہم جیتے ہیں، اسکی سفاک حقیقت یہی ہے۔
اس تقسیم کی وسیع تر اشکال اچھے اور برے، صحیح اور غلط، فائدے اور نقصان کے متضاد عناصر کو بھی نمایاں کرتی ہیں۔ یہ تقسیم یکساں طور پر اہم انفرادی اور ادارہ جاتی مطابقت رکھتی ہے جو معاشرتی ترقی اور مجموعی فریم ورک کےاندر لوگوں کی ترقی پر تاریکی کی مہیب پرچھائیاں ڈال رہی ہے۔ نتیجتاً وقت کے ساتھ ساتھ حالات خراب ہوتے چلے گئے ہیں۔ اپنا مقدر بنانے کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی ہو رہی ہیں، خاص طور پر وہ طبقات جو آج بھی اخلاقی اقدار کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔اس طرح معاشرہ لوگوں کیلئے غیر موزوں اور غیر مساوی بنیادرکھتا ہے۔
ادارہ جاتی انضباطی طریق کار جو ہمہ گیر اقدار کے ڈھانچے پر مبنی ہوں ، کی غیر موجودگی میں اور ذاتی دھن میں مست رہنے کی وجہ سے معاشرہ یا تو غیر قانونی دولت سمیٹنے کی راہ پر چل نکلتا ہے یا غربت کی دلدل میں ہاتھ پائوں مارتا دکھائی دیتا ہے ۔اس کی وجہ سے افراد کو پہنچنے والا نقصان ممکن ہے ان کی ذاتی زندگیوں اور ان کے قریبی عزیز و اقارب کی زندگیوں تک محدود ہولیکن مجموعی طور پر کل معاشرے کو کہیں زیادہ نقصان پہنچتا ہے جب اس کی وجہ سے ادارے اپنی اہمیت کھو بیٹھتے ہیں ۔
پاکستانی منظر نامے نے اس مجموعی مظاہر کے واضح اثرات کو جذب کر لیا ہے۔ اداروں کو ایک شیطانی اسکیم کے چکر میں لا کر اس طرح کام لیا جارہا ہےجسکا مقصد موجودہ صورت حال کو برقرار رکھنا ہے جو معاشرے کے باقی دھڑوں کو نقصان پہنچا کر مفاد پرست اشرافیہ کے مواقع کو آگے بڑھاتا ہے۔ اگرچہ یہ رواج ہماری قومی زندگی میں مختلف درجوں میں رائج رہا ہے لیکن موجودہ دور میں جس شدت اور جبر سے اس پر عمل کیا جا رہا ہے وہ بے حد افسوسناک ہے۔
اس عمل میں آئین، قانون کی حکمرانی اور جمہوری اصولوں کو صحت مندانہ گفتگو میں شامل نہیں کیا جاتا گویا یہ فضول چیزیں ہیں جنہیں اٹھا کر باہر پھینک دینا چاہیے۔مقننہ، عدلیہ اور ایگزیکٹو پر محیط آئین میں درج تین آزاد ستونوں پر کھڑے ہونے کی بجائے ریاست اب صرف آخری بیان کردہ بیساکھی پر ٹکی ہوئی ہے جب کہ باقی دو سے دست کش ہوا جا چکا ہے۔ جہاں مقننہ ایگزیکٹو کی باندی بننے کا روایتی کردار اپنا چکی ہے، عدلیہ 26ویں آئینی ترمیم کے بوجھ تلے دب چکی۔
نظام کی خرابی نے ریاست کو مکمل طور پر غیر فعال کر دیا ہے۔ آزادی کے بعد سے اس ملک کو اس وقت جن ناکامیوں کا سامنا ہے ، ان کی سنگینی ناقابل بیان ہے ۔ وقت کیساتھ ان ناکامیوں کی گھمبیر سنگینی نے احساس زیاں اور مایوسی کو جنم دیا ہے۔ ریاست سے انصاف مانگنے والوں کے ساتھ غیرانسانی سلوک کیا جاتا ہے۔ وہ لوگ جنہیں محض بقا کیلئے کچھ مواقع کی ضرورت ہوتی ہے، ان کی تذلیل کی جاتی ہے۔ اور جو لوگ اپنے وقار اور عزت نفس کا تحفظ چاہتے ہیں ، انھیں بتایا جاتا ہے کہ اپنی روح کی قیمت پر اپنی جان بچا سکتے ہیں ۔ یہ وقت ہوتاہے جب زندگی ایک ناقابل برداشت بوجھ اور لامتناہی اذیت بن جاتی ہے۔
فساد کی یہ لہر اترتے دکھائی نہیں دیتی۔ درحقیقت یہ انا، حبس، تکبر وغیرہ سے بوجھل ہو چکی ہے۔ ریاستی آپریشنل نظام پر مضبوط کنٹرول کے نفاذ اور انصاف کے حصول کے تمام راستے مسدود ہونے کے بعدایسا لگتا ہے کہ مروجہ قسم کی تقسیم مستقبل قریب کیلئے ایک مستقل مظہر بن سکتی ہے جہاں مفاد پرست ریاستی اثاثوں کی تہیں کھودنے لگتےہیں ۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم دوسروں کی طرف پتھر اچھالناچھوڑ دیں اور ان وجوہات کو تلاش کرنے کیلئے اندر کی طرف دیکھیں جو ہمیں تباہی کے اس دہانے تک لے آئی ہیں۔
آئین، قانون کی حکمرانی اور انصاف کو کوڑے دان میں ڈالے جانے سے قومی عمارت تباہ ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ فی الحال، آئین کی کتاب کا کوئی حوالہ نہیں، سارا نظام ان چند لوگوں کی خواہشات کا اسیر ہے جنکے پاس طاقت اور استبداد کے تمام ہتھکنڈے موجود ہیں ۔
موجودہ حالات کے پاس ریاست کو سنبھالنے کیلئے کوئی مثالی نسخہ نہیں جوداخلی منافرت اور بیرونی قوتوں کی جارحیت کی زد میں ہو۔ ایسے حالات میں اندرون ملک ہم آہنگی کی اور بھی زیادہ ضرورت ہے تاکہ آنے والے چیلنجوں سے پوری قومی طاقت کے ساتھ موثر انداز میں نمٹا جا سکے۔ ہمیں اپنی تاریخ کے اس نازک موڑ پر اسی پر زور دینا چاہیے۔اگر یہ ایک مقصد بننا ہےتو اتحاد اور یکسانیت کی طرف پوری یکسوئی کے ساتھ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھانے ہوں گے۔ ایسا نہیں ہوگا جب ملک کے اندر اختلاف رکھنے والی کچھ قوتوں کو نشانہ بنایا جاتا رہے گا ۔ مفاہمت کا ایک حقیقی عمل تمام اسٹیک ہولڈرز کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے کا تصور کرتا ہے، جن میں سے کچھ کے پاس بقایا مسائل کو حل کرنے کے بارے میں مختلف تفہیم بھی ہو سکتی ہے۔ بدقسمتی سے قومی منظر نامے میں اس وقت اس طرح کے امکان کا تصور نظر نہیں آتا۔
اس طرح کے حالات میں ضرورت محاذ آرائی کی نہیں بلکہ لچک دکھانے کی ہے۔ ہمیں ایک قدم پیچھے ہٹا کر سوچنا ،اور درپیش چیلنجوں کے خلاف تمام تر تقسیم اور تفریق کو ایک طرف کرنا ہوگا۔ مل بیٹھنے کی بہت باتیں کی گئی ہیں۔ اس کے آغازکیلئے سنجیدہ اور بامعنی اقدامات کے ساتھ اختلافات کے دائرے سے آگے بڑھ کر کچھ کرنا ہوگا۔ بداعتمادی کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے اور ان کی جگہ ملک اور اس کے مصائب کے شکار لوگوں کی فلاح و بہبود کیلئے اجتماعی دانش کے ثمرات حاصل کرنے کا یہی واحد طریقہ ہے۔
(کالم نگار پی ٹی آئی کے رہنما ہیں)