کراچی (اسد ابن حسن) ایڈیشنل انسپکٹر جنرل آف پنجاب پولیس نے صوبے بھر کے تمام متعلقہ تفتیشی افسران اور ایس ایچ اوز کو سختی سے ہدایت کی ہے کہ سائبر جرائم سے متعلق مقدمات درج کرنا ان کا دائرہ اختیار نہیں بلکہ سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی کا ہے۔ کافی برسوں سے پنجاب پولیس کی روایت رہی تھی کہ وہ سائبر جرائم اور خاص طور پر کال سینٹرز پر چھاپے مار کر وہاں کے ذمہ داروں کو تھانوں میں لے آتے تھے اور بھاری رقوم وصول کر کے ان کو جانے دیا جاتا تھا۔ مذکورہ معاملے پر کافی عرصے سے بحث جاری تھی جس کے بعد ایڈیشنل انسپیکٹر جنرل پنجاب پولیس نے ایک سخت مراسلہ جاری کیا ہے جس میں قانونی شقوں کا ذکر بھی کیا گیا ہے جبکہ ساتھ ہی رواں برس کے 10 ماہ کے پنجاب پولیس میں سائبر جرائم سے متعلق مقدمات کی تفصیلات موجود ہیں۔ مراسلے میں وضاحت کی گئی ہے کہ پیکا ایکٹ 2016صرف نیشنل سائبر کرائم انویسٹیگیشن ایجنسی ہی کسی جرم پر نافذ کر سکتی ہے اور پنجاب پولیس کے کسی افسر کو یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ مذکورہ ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کرے۔ تمام متعلقہ افراد کو سختی سے ہدایت کی گئی ہے کہ وہ آئندہ سے پیکا ایکٹ 2016 کے تحت سائبر جرائم کا کوئی بھی مقدمہ تھانے میں درج نہیں کر سکتے اور نہ ہی ڈی ایس پی لیگل اور ان کو ایسا کرنے کی ہدایت دینے کا مجاز ہے۔