• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سندھ فیڈر لائن کی بحالی، سفر، زراعت اور تجارت کے لئے نئی زندگی

کراچی ( اعجاز احمد) سندھ فیڈر لائن کی بحالی سے اندرون سندھ کے عوام کو سفری سہولت کی فراہمی کے ساتھ ساتھ زراعت اور تجارت کو بھی نئی زندگی مل سکتی ہے۔ ماضی میں اجناس انہی پٹڑیوں کے ذریعے کراچی پہنچتی تھیں۔ ریلوے ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر سندھ فیڈر لائن دوبارہ فعال کردی جائے تو یہ نہ صرف اندرون سندھ کے عوام کے لئے سفری سہولت فراہم کرے گی بلکہ زراعت اور تجارت کو بھی نئی زندگی بخش سکتی ہے، یہ محض ایک پٹڑی ہی نہیں بلکہ ایک تاریخی ورثہ بھی ہے، جو سندھ کی معیشت اور سماجی ڈھانچے کی عکاسی کرتا ہے۔ماضی میں اس کے ذریعے چاول، گندم، کپاس اور دیگر اجناس انہی پٹڑیوں کے ذریعے کراچی اور دیگر بڑے شہروں تک پہنچتی تھیں۔ برصغیر میں ریل کی تاریخ پر اگر نظر ڈالی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ یہاں ریل کا آغاز 13 مئی 1861 ءکو اس وقت ہوا، جب کراچی سے کوٹری تک 169 کلومیٹر طویل پہلا ریلوے ٹریک بچھایا گیا، جس کے بعد 1878ءمیں یہ لائن ’’ابھڑ‘‘ کے راستے پنجاب سے ملادی گئی۔ نیز اجناس اور کپاس سمندر تک پہنچانے کے لئے سندھ کے اندرونی علاقوں میں مختلف فیڈر لائنیں تعمیر کی گئیں، جن میں سب سے اہم ٹنڈو آدم سے محراب پور تک سندھ فیڈر ریلوے لائن تھی، یہ لائن اپنے دور میں سندھ کی زراعت اور تجارت کے لئے ریڑھ کی ہڈی سمجھی جاتی تھی، یہ ٹنڈو آدم سے شروع ہو کر ملا مکھن، بھٹ شاہ، ہالا، باروچو باغ، نیو سعیدآباد، سلہداد راہو، صابو راہو، سکھری، سخیو، مناہیجو، قاضی احمد، نواب ولی محمد خان، دولت پور صفن، شاہ پور جہانائی، مارو فیض محمد، مناجتوئی، سومرو چندکا، متھیانی، دلی پوٹا، تھارو شاہ، دربیلو، کنڈیارو اور عاقل شاہ سے گزرتی ہوئی محراب پور پر ختم ہوتی تھی، اس کا کل فاصلہ تقریباً 171 کلومیٹر تھا، جس سے 2 برانچ لائنیں بھی نکلتیں تھیں۔ پہلی برانچ لائن سکرنڈ سے نواب شاہ تک جاتی تھی، جب کہ دوسری تھارو شاہ سے پڈ عیدن تک نکلتی تھی، ان دونوں لائنوں کو ملا کر ان کا مجموعی نیٹ ورک تقریباً 240 کلومیٹر بنتا تھا، یہ نیٹ ورک اس دور میں زرعی پیداوار کے لئے شہ رگ کی حیثیت رکھتا تھا، کیوں کہ چاول، گندم، کپاس اور دیگر اجناس انہی پٹڑیوں کے ذریعے کراچی اور دیگر بڑے شہروں تک پہنچتی تھیں، تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ اہم فیڈر لائن بدانتظامی، کم آمدنی اور سڑکوں کے بڑھتے جال کے باعث بتدریج غیر فعال ہوتی گئی اور آج اس کے بیشتر اسٹیشن ویران ہو چکے ہیں، ٹریک زنگ آلود اور زمین میں دفن ہوتا جا رہا ہے، یوں ایک عظیم معاشی شاہراہ محض یادوں کا حصہ بن گئی ہے۔ 
اہم خبریں سے مزید