• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

غیر قانونی جوئے کے پلیٹ فارمز کیخلاف اقدامات کیے جا رہے ہیں، پی ٹی اے

اسلام آباد ( قاسم عباسی )پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کا کہنا ہے کہ وہ پاکستان میں دوبارہ سے سرگرم ہونے والے غیر قانونی "سروگیٹ ( پردہ پوش )جوئے کے پلیٹ فارمز" کیخلاف متعدد اقدامات کر رہی ہے۔ گزشتہ سال نگراں وزیرِاعظم انوارالحق کاکڑ کی حکومت نے 150سے زائد ایسے پلیٹ فارمز پر مکمل پابندی عائد کی تھی، جب کہ وزارتِ اطلاعات و نشریات نے "سروگیٹ(پردہ نشیں) جوئے کی کمپنیوں کے لیے مکمل عدم برداشت" کے عنوان سے ایک نوٹیفکیشن جاری کیا تھا، جس میں میڈیا ہاؤسز اور ریاستی اداروں کو خبردار کیا گیا تھا کہ اگر جوئے کی ایپلی کیشنز کو فروغ دینے میں ملوث پائے گئے تو ان پر سخت سزائیں دی جائیں گی۔ اُس وقت حکومت نے ایک بین الاقوامی کرکٹ سیریز کے دوران جوئے کی کمپنی کا لوگو نشر کرنے پر سرکاری نشریاتی ادارے کے اسپورٹس چینل کی نشریات بھی معطل کر دی تھیں۔تاہم، ایک سال سے بھی کم عرصے بعد وہی جوئے کی کمپنیاں دوبارہ سامنے آ گئی ہیں اور فعال ڈیجیٹل مہمات، آؤٹ ڈور اشتہارات اور پروموشنل اسپانسرشپس جاری رکھے ہوئے ہیں۔ تنازع کو مزید بڑھانے والی بات یہ ہے کہ ایک معروف سابق کرکٹر اب بھی ایک بڑے جوا آپریٹر کی تشہیر کر رہے ہیں، حالانکہ نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی (NCCIA) میں اس حوالے سے شکایات درج کرائی جا چکی ہیں۔روزنامہ دی نیوز نے پی ٹی اے سے پوچھا کہ یہ اشتہارات سوشل میڈیا پر مؤثر طور پر کیوں بلاک نہیں ہو رہے۔اس پر پی ٹی اے نے باضابطہ جواب میں کہاکہ الیکٹرانک کرائم ایکٹ کے سیکشن 37 کے تحت پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ پاکستان کے دفاع، اسلام کی عظمت، عدالت کی توہین، شائستگی اور اخلاقیات، بدنامی، بچوں کی فحش نگاری، انسانی وقار، عوامی نظم، نفرت انگیز تقریر، جرم پر اکسانے وغیرہ کے تحفظ کے لیے غیر قانونی آن لائن مواد کو ہٹائے یا بلاک کرے یا اس کے لیے ہدایات جاری کرے۔ تاہم جہاں معاملہ فوجداری، مالیاتی یا ریگولیٹری تحقیقات یا عملی اقدامات کا ہو، وہاں پی ٹی اے متعلقہ اداروں جیسے نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی (NCCIA)، اسٹیٹ بینک آف پاکستان (SBP) اور سکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (SECP) کی شکایات یا سفارشات پر انحصار کرتا ہے۔ اب تک، اسٹیک ہولڈر اداروں کی شکایات کی بنیاد پر پی ٹی اے 260 ویب سائٹس اور ایپس کو بلاک کر چکا ہے جو جوئے کی یا جوا کھیلنے کی سہولت فراہم کر رہی تھیں، جن میں متعلقہ پلیٹ فارم سے منسلک 7 لنکس بھی شامل ہیں۔ یہ بھی واضح رہے کہ وہ پلیٹ فارمز جہاں یہ اشتہارات دکھائے جا رہے ہیں، پاکستان سے باہر قائم ہیں اور ان کے اپنے عالمی اصولوں پر مبنی کمیونٹی گائیڈ لائنز ہیں جن کے تحت وہ اپنے پلیٹ فارمز پر مواد کو منظم کرتے ہیں۔"مقامی قوانین پر عمل درآمد کے لیے پی ٹی اے نے مزید کہا کہ اس نے متعلقہ پلیٹ فارمز کے ساتھ معاملہ آگے بڑھایا ہے اور درج ذیل اقدامات کیے ہیں۔ {C}1. {C}بڑے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ساتھ خصوصی روابط قائم کیے ہیں تاکہ مقامی قوانین اور اقدار کی خلاف ورزی کرنے والے مواد کو رپورٹ اور بلاک کیا جا سکے۔بڑے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ساتھ باقاعدہ مشاورتی اجلاس منعقد کیے جاتے ہیں تاکہ مواد کے ضوابط پر بات کی جا سکے اور مقامی قوانین پر عمل درآمد کے لیے تعاون کو بڑھایا جا سکے۔ {C}2. {C}عوام اور سرکاری اداروں کے لیے جامع شکایتی نظام قائم کیا گیا ہے تاکہ غیر قانونی مواد پی ٹی اے کو رپورٹ کیا جا سکے، جسے بعد ازاں متعلقہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو فوری ہٹانے کے لیے آگے بھیج دیا جاتا ہے۔ {C}3. {C}اس کے علاوہ، پی ٹی اے نے متعدد سوشل میڈیا پلیٹ فارمز جیسے میٹا اور ٹک ٹاک کے ساتھ مل کر وسیع پیمانے پر آگاہی مہمیں شروع کی ہیں تاکہ انٹرنیٹ کے محفوظ اور ذمہ دارانہ استعمال کو فروغ دیا جا سکے۔ دی نیوز نے وزارتِ اطلاعات و نشریات اور نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی سے بھی اس معاملے پر مؤقف لینے کی کوشش کی لیکن بارہا رابطے کے باوجود کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ماہرین نے دی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے خبردار کیا کہ ان غیر قانونی جوئے کی نیٹ ورکس کا تعلق منی لانڈرنگ، دہشت گردی کی مالی معاونت اور منظم جرائم سے ہے، اور یہ ملک کے نوجوانوں میں جوا کھیلنے کو معمول بنانے کا خطرہ پیدا کر رہے ہیں۔ ایک ذریعے نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا: "جب کھیلوں کے مشہور ستارے اس صنعت کی تشہیر کرتے ہیں، تو اس سے مسئلہ کئی گنا بڑھ جاتا ہے کیونکہ یہ ایک ایسی سرگرمی کو جائز بنا دیتا ہے جو آئین اور مذہب دونوں کی نظر میں ممنوع ہے۔"این سی سی آئی اے میں درج کرائی گئی شکایت میں کرکٹر کی تصاویر اور محفوظ شدہ پوسٹس شامل ہیں، جن میں اگست 2024 سے جوئے کی پلیٹ فارمز کی تشہیر دکھائی گئی ہے۔
اہم خبریں سے مزید