20 ستمبر بروز جمعہ سفارتخانہ پاکستان نے ’’پاکستان ایمبیسی انٹرنیشنل اسٹڈی گروپ‘‘ کے تعاون سے حضور رحمتِ عالم ﷺ کے 1500ویں جشن ولادت کے موقع پر ایک عظیم الشان بین الاقوامی سیرت النبی ﷺ کانفرنس کا انعقاد کیا۔
یہ محفل محض ایک تقریب نہ تھی، یہ ایک پیغام تھی، ایک یاد دہانی تھی کہ رسولِ اکرم ﷺ کی ذات اقدس ہی انسانیت کے لیے اصل مینارِ نور ہے، اور ان کی سیرت ہی وہ راہ ہے جو بگڑی دنیا کو سنوار سکتی ہے۔
اس کانفرنس میں بنگلہ دیش، مالدیپ، سوڈان، متحدہ عرب امارات، ایران، آذربائیجان اور مصر کے نمائندے موجود تھے۔ ترکیہ کے دانشور اور اسلامی دنیا کے نامور اہلِ علم شریک تھے۔ یہ سب گویا ایک ہی زبان میں کہہ رہے تھے کہ حضور ﷺ کا پیغام ہماری مشترکہ میراث ہے، ہماری اصل طاقت ہے اور ہماری وحدت کی ضمانت ہے۔
مقررین نے دلوں کو گرمانے والے خطابات کیے۔ پروفیسر ڈاکٹر مرزاحان ہزال اور ڈاکٹر شبان علی دوزگون نے بتایا کہ حضور ﷺ کی ذات سراپا عدل، رحمت اور اخلاقِ حسنہ ہے۔ پاکستانی سفیر ڈاکٹر یوسف جُنید نے اپنے خطاب میں کہا کہ رسولِ اکرم ﷺ کی سیرت ہمیں تنگ نظری اور ذاتی مفاد سے بلند ہوکر اجتماعی بھلائی کے لیے کام کرنے کی تلقین کرتی ہے۔ یہ سیرت ہمیں سکھاتی ہے کہ ظلم کے زمانے میں عدل قائم کیا جائے، سختیوں کے دور میں رحمت کو تھاما جائے اور دنیا میں امن و آشتی کو عام کیا جائے۔
یہ الفاظ دلوں میں اتر گئے۔ گویا ہر شخص کو یاد دلا دیا گیا کہ حضور ﷺ کی تعلیمات آج بھی ہمارے لیے زندہ رہنمائی ہیں۔
جب نعتیہ کلام کی گونج فضا میں پھیلی تو محفل وجد و کیف میں ڈوب گئی۔ ہر دل کی دھڑکن مدینہ منورہ کی سمت متوجہ ہو گئی۔ ہر آنکھ عقیدت سے تر ہوگئی۔ یہ منظر وہی جان سکتا ہے جس نے عشقِ مصطفیٰ ﷺ کی لذت کو محسوس کیا ہو۔
یہ کانفرنس ہم سب کے لیے ایک یاد دہانی تھی کہ اگر آج بھی ہم اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کو اسوۂ رسول ﷺ کے مطابق ڈھال لیں تو دنیا ظلم و فساد سے نکل کر امن و محبت کا گہوارہ بن سکتی ہے۔ یہ اجتماع گویا پکار رہا تھا کہ اے مسلمانو! تمہاری اصل پہچان محمد ﷺ کی امت ہونا ہے، اور تمہاری اصل طاقت اسی نسبت میں پوشیدہ ہے۔
فکری اور روحانی تقویت
شرکاء نے پاکستانی سفارتخانے کے اس روح پرور اقدام کو بے حد سراہا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کے پروگرام نہ صرف امتِ مسلمہ کے درمیان فکری و روحانی ربط کو تقویت دیتے ہیں بلکہ حضور اکرم ﷺ کے پیغامِ رحمت کو نئی نسل تک پہنچانے کا ایک مؤثر ذریعہ بھی بنتے ہیں۔ ایسے اجتماعات ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ ہم سب ایک ہی چراغ کی لو سے جُڑے ہیں، اور وہ چراغ رسولِ رحمت ﷺ کی ذات اقدس ہے۔
یہ کانفرنس محض ایک تقریب نہ تھی بلکہ امت کے لیے ایک پیغام تھی جس میں ایمان کی تجدید اور عشقِ رسول ﷺ کی تازگی تھی۔ یہ عہد تھا کہ ہم سب اپنے آقا ﷺ کی تعلیمات کو دنیا میں عام کریں گے، ظلم کے مقابل عدل اور نفرت کے مقابل محبت کو پھیلائیں گے۔
اس کانفرنس کے پیغام میں کہا گیا کہ اگر آج بھی ہم حضور ﷺ کے اسوۂ حسنہ کو اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی کا محور بنا لیں، تو دنیا ظلمت و فساد کی بجائے امن، عدل اور محبت کا گہوارہ بن سکتی ہے۔