یہ کس قدر اُمید افزا، خوش آئند بات ہے کہ برطانیہ اور کینیڈا میں مقیم انجینئیرنگ اور آرٹی فیشل انٹیلی جینس کے کچھ ماہر نوجوانوں نے پاکستانی ٹیلنٹ کے اشتراک سے آرٹی فیشل انٹیلی جینس کا ایک ایسا جدید پلیٹ فارم قائم کیا ہے، جس کے ذریعے فنانس اور اکاؤنٹنگ کو خودمختار بنایا جارہا ہے۔ یہاں تک کہ یہ پلیٹ فارم’’ سلیکون ویلی‘‘ کے حریفوں کو چیلنج دے رہا ہے اور اس فیلڈ میں انقلابی ٹیکنالوجی بھی متعارف کروا رہا ہے۔
واضح رہے ’’اے ایل سرل اسمارٹ‘‘ نامی یہ پلیٹ فارم بیک وقت تحقیق، پراڈکٹس کی تیاری اور پاکستان میں اعلیٰ تعلیم یافتہ طلبہ کو ٹرانسفر آف ٹیکنالوجی کے ذریعے تربیت فراہم کر رہا ہے۔ اِس پلیٹ فارم کا قصّہ وہاں سے شروع ہوتا ہے، جب برطانیہ اور کینیڈا میں مقیم تین پاکستانی نوجوانوں نے، جو اے ایل انجینئیرنگ اور اکاؤنٹنگ میں مہارت رکھتے تھے، اکاؤنٹنگ کے ایک قدیم مسئلے کے حل پر توجّہ دی اور فیصلہ کیا کہ مصنوعی ذہانت اور انجینئیرنگ کے اشتراک سے کچھ ایسے طریقے سامنے لائے جائیں، جن سے چھوٹے، بڑے کاروبار کرنے والے افراد کے لیے اکاؤنٹنگ کا عمل تیز، درست اور سستا ہو سکے۔
نیز، بزنس اور لین دین میں فراڈز اور کرپشن سے بھی نجات مل سکے۔ اِن اوور سیز پاکستانی نوجوانوں اور دیگر ماہرین کی مشترکہ کوششیں جلد ہی عملی شکل اختیار کر گئیں اور ایک ایسا پلیٹ فارم وجود میں آگیا، جو آج اِس نوعیت کے بڑے اسٹارٹ اَپس کے برابر کھڑا ہے۔
اوورسیز پاکستانیوں کا یہ پلیٹ فارم’’ SiRiil‘‘امریکا میں رجسٹرڈ ہے اور وہیں سے کام کرتا ہے۔یہ ایسے چھوٹے آن لائن پلیٹ فارمز تیار کرتا ہے، جو روزمرّہ اکاؤنٹنگ کے معمولی اور مشکل، دونوں طرح کے مسائل نمٹاتے ہیں۔ ان میں مینجمینٹ رپورٹس، مالیاتی اسٹیٹمینٹس، بیلنس شیٹس کی تیاری اور ایسے ہی دیگر امور شامل ہیں، جن کے لیے ٹیکنیکل افرادی قوّت درکار ہوتی ہے اور وقت بھی خاصا صَرف ہوتا ہے، بلکہ بزنس سے زیادہ وقت اِنہی امور پر لگ جاتا ہے۔ اِسی ضمن میں ایک اہم شعبہ، ٹیکس کا بھی ہے۔
اِس پلیٹ فارم کے ٹُولز، جہاں تک ممکن ہو، مقامی قوانین کے مطابق ٹیکس ادائی کے عمل میں بھی مدد دیتے ہیں۔ پاکستان کو اِس وقت اِن تمام شعبوں، بالخصوص ٹیکس کے معاملات میں بڑے چیلنجز کا سامنا ہے۔ سرل پلیٹ فارم اپنے سافٹ ویئرز اور اُن کے حل کو’’ agentic‘‘ کہتا ہے، یعنی ہر وقت تیار اور ہوشیار۔ جیسے ہی کوئی مسئلہ سامنے آیا، اُس کا حل تلاش کرلیا۔ اِس طریقۂ کار میں آرٹی فیشل انٹیلی جینس ٹُولز کا بھرپور استعمال کیا گیا ہے، جو نہ صرف مخصوص امور سرانجام دیتے ہیں، بلکہ مشورے بھی دیتے ہیں، لیکن آخری فیصلہ اُس انسان ہی کے سپرد کرتے ہیں، جو کاروبار کا مالک ہو۔
اِس اے ایل پلیٹ فارم کے بانیوں کا کہنا ہے کہ’’اِس پلیٹ فارم اور اس کی تیار کردہ پراڈکٹس کا مقصد اکاؤنٹنگ سے وابستہ افراد کی ملازمتیں ختم کرنا نہیں، بلکہ انہیں اِن کے کام میں مدد فراہم کرنا ہے، جب کہ اِس سے کاروباری افراد کو بھی اپنے بزنس اور اس سے متعلقہ مسائل بہتر طریقے سے حل کرنے میں مدد ملتی ہے اور وہ صرف اُن امور پر فوکس رکھ سکتے ہیں، جو انتہائی ضروری ہوں، جیسے مشورہ اور فیصلہ، نہ کہ صرف دفتری مشقّت اور روٹین کے کاموں ہی میں اُلجھے رہنا۔‘‘
اِس طرح کی تخلیقات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستانی نوجوانوں کی سوچ کتنی تخلیقی ہے۔ وہ مُلک میں ہوں یا بیرونِ مُلک، اپنی صلاحیتوں کا بھرپور اظہار کر رہے ہیں۔ ’’سرل‘‘ کی کام یابی، اے ایل کی عملی ٹیکنالوجی کی کہانی ہے، جو عام کاروباری زندگی کو آسان بنانا چاہتی ہے۔ یہ ایک ایسی ٹیم کی کہانی بھی ہے، جس نے اکاؤنٹنگ کی دنیا کو نئی جہتوں سے رُوشناس کرنے کا عزم کیا اور کام یاب رہی۔
اِس ضمن میں تین پاکستانیوں نے بنیادی کردار ادا کیا، جو سب اوورسیز ہیں۔ ان کے پاس مختلف نوعیت کی اعلیٰ تعلیم، تجربہ اور مہارتیں ہیں، جن کے اشتراک سے یہ ایجاد ممکن ہوئی اور یہ بھی ثابت ہوا کہ کس طرح دو، تین مہارتیں ملا کر کوئی بڑا کام کیا جا سکتا ہے۔ ’’سرل‘‘ کے سی ای او، پاکستانی نژاد، ڈاکٹر کاشف محمود امریکن یونی ورسٹیز سے ڈبل پی ایچ ڈی ہیں، جب کہ مصنوعی ذہانت اور بزنس ایڈمنسٹریشن ان کے موضوعات ہیں۔
ان کا تحقیقی اور عملی پس منظر پراڈکٹ ڈیزائننگ ہے۔ نبیل مرزا(راقم) کا تعلق برطانیہ سے ہے، چارٹرڈ اکاؤنٹینٹ ہیں اور ان کا بینکنگ سے لے کر مالیاتی اداروں تک کا عمیق، گہرا اور وسیع تجربہ ہے، خاص طور پر ڈیٹا سائنس اور اکاؤنٹنگ کے ماہرین میں شمار ہوتا ہے۔ ان نوجوان پاکستانی ماہرین کا دعویٰ ہے کہ وہ سلیکون اسٹارٹ اَپس کے ساتھ براہِ راست مقابلہ کر رہے ہیں۔ اس ادارے کے تیسرے رُکن حمّاد محمود ہیں، جو سسٹم بنانے کے ماہر ہیں۔ وہ یہ امر یقینی بناتے ہیں کہ بنائے گئے سافٹ ویئرز قابلِ اعتماد ہوں اور بہترین طرز پر کام کریں تاکہ صارفین اُن سے زیادہ سے زیادہ اور تیز رفتاری سے فائدہ اُٹھا سکیں۔
یہ سوال بجا طور پر کیا جاسکتا ہے کہ موجودہ دنیا میں اکاؤنٹنگ ایک جدید آرٹی فیشل انٹیلی جینس کی کیوں متقاضی ہے؟ تو اِس سوال کا جواب یہ ہے کہ اکاؤنٹنگ ہر کاروبار کے لیے ضروری ہے، یہ سرمائے کے بہاؤ کو ریکارڈ اور ایک سسٹم میں لاتی ہے۔ پاکستان میں اکثر سُننے میں آتا ہے کہ سارا بزنس اور مالیاتی نظام جب تک کسی سسٹم میں نہیں آئے گا، مربوط ترقّی ممکن نہیں۔
شعبہ اکاؤنٹنگ ہی کے ذریعے کمپنیز کے اثاثہ جات، واجبات، بینکس سے معاملات، ٹیکس اور سرمایہ کاروں کے لیے ایسی رپورٹس تیار کی جاتی ہیں، جن پر بھروسا اور اعتماد کیا جاسکے، نیز آئندہ کی ترقّی کا لائحۂ عمل تیار کیا جاسکے۔ تمام شارٹ اور لانگ ٹرم منصوبے اِسی شعبے کے گرد گھومتے ہیں۔ اب بڑے کاروبار تو منہگی اکاؤنٹنگ پر سرمایہ لگا سکتے ہیں، لیکن چھوٹے کاروباری، جنہیں ایس ایم ایز بھی کہا جاتا ہے اور کاروباری دنیا میں جن کی تعداد سب سے زیادہ ہے، اِس طرح کی منہگی اکاؤنٹنگ افورڈ نہیں کر پاتے۔اور بہت سے کاروبار اِسی میں اُلجھ کر ڈوب جاتے ہیں کہ اِن تمام کاموں میں اکاؤنٹنگ کی غیر معمولی محنت درکار ہوتی ہے اور پیسا بھی۔
دنیا میں تقریباً 450 ملین ایس ایم ایز یا چھوٹے کاروباری ہیں اور جیسے جیسے اداروں میں ملازمتیں سِمٹ رہی ہیں، چھوٹے کاروباروں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ایک تو یہ کمپنیز یا کاروبار اعلیٰ پائے کے فُل ٹائم اکاؤنٹینٹ رکھنے کی مالی سکت نہیں رکھتے، پھر اِس شعبے میں بھی مہارتوں کا فقدان بڑھتا جا رہا ہے۔ اِس صورتِ حال میں چھوٹے کاروبار سے منسلک افراد کے لیے آگے بڑھنا بہت مشکل ہو رہا ہے۔
بالخصوص پاکستان جیسے ممالک میں تو یہ ایک بڑا چیلنج بنتا جارہا ہے، حالاں کہ مُلکی ترقّی کا تقاضا تو یہی ہے کہ زیادہ سے زیادہ بزنس، نجی شعبے کے حوالے کیا جائے، کیوں کہ حکومت کا کام بزنس کرنا نہیں، قانون سازی اور سہولتیں فراہم کرنا ہے۔
بہرحال،’’سرل‘‘اکاؤنٹنگ کا سستا، آسان، تیز اور قابلِ اعتماد پلیٹ فارم فراہم کر رہا ہے۔ اب اگر کاروبار میں زیادہ وقت رپورٹس بنانے اور مشورے کرنے میں گزرے، تو اصل بزنس کے لیے وقت کیسے نکلے گا۔ پھر اِس پر پیسا بھی لگتا ہے، جو ایک نان پروڈکٹیو سرگرمی ہے، تو اس پلیٹ فارم نے اسی میں توازن قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔ معمول کے کام خودکار طریقے سے کریں، یعنی اے ایل سے اور فیصلہ سازی انسان خود کرے۔
یہ غالباً پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ عالمی سطح پر کسی نے آرٹی فیشل انٹیلی جینس کو منظّم طور پر اکاؤنٹنگ اور کاروباری شعبے سے منسلک کرنے کی کوشش کی ہے اور یہ اہم پیش رفت پاکستانی ماہرین کے حصّے میں آئی۔ اِس ضمن میں حکومت سے ایک پیسا بھی نہیں لیا گیا۔’’سرل‘‘ نے آؤٹ سورس کرنے جیسا عمومی طریقۂ کار نہیں اپنایا، جس میں تربیت فراہم کرنے والوں کی تمام تر توجّہ محض ڈالرز اور پاؤنڈز پر رہتی ہے،جب کہ اس کے تحت بیرونِ مُلک مقیم نوجوان انجینئرز اور اے ایل کے طلبہ کو تربیت بھی دی گئی ہے۔
نیز، اِس پلیٹ فارم نے رواں برس تین مہینے کا ایک انٹرن شپ پروگرام لانچ کیا، جس میں پاکستان بَھر سے1200 سے زاید درخواستیں موصول ہوئیں اور ان میں ممتاز یونی ورسٹیز کے طلبہ بھی شامل تھے۔ ان میں سے دس طلبہ کا انتخاب کیا گیا اور پھر انہیں جدید مصنوعی ذہانت اور مشینی اکاؤنٹنگ کی عملی تربیت دی گئی۔ اِس تربیتی پروگرام کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ ایک ایسی چَین بنا دی جائے، جو مختلف مقامی اداروں میں خود مختار طریقے سے کام کرے، ایک سے دوسرے کی تربیت کا سلسلہ چلتا رہے اور جن کی اَپ ڈیٹنگ سرل پلیٹ فارم امریکا، لندن اور کینیڈا سے کرتا رہے۔
نیز، یہ مقامی ماہرین یونی ورسٹیز اور اداروں سے مل کر تحقیقی اور تربیتی امور سرانجام دیں گے، جب کہ ساتھ ہی اصل مارکیٹ میں اپنی مہارت سے اکاؤنٹنگ میں نئی جہتیں بھی لائیں گے۔ اِس طرح پاکستان اور ایسے ہی دوسرے ممالک اکاؤنٹنگ، مالیات، بینکنگ اور دوسرے شعبوں کی ایک نئی دنیا میں قدم رکھ سکیں گے، جس پر نہ ہونے کے برابر محنت اور سرمایہ کاری کرنی پڑے گی۔ یقیناً یہ اوورسیز پاکستانیوں کی وطن سے محبّت اور اس کا وقار بلند کرنے کی ایک قابلِ تعریف کاوش ہے۔
عملی طور پر’’سرل پلیٹ فارم‘‘ کراس بارڈر ماڈل پر کام کر رہا ہے۔ لندن اور ٹورنٹو میں پالیسی اور پراڈکٹس کی حکمتِ عملی ترتیب دی جاتی ہے، جب کہ پاکستان میں ترقّی اور فوری تجربہ کاری ہوتی ہے۔ یہ اشتراک پراڈکٹ، ڈیزائننگ اور انجینئرنگ میں، جو اس ٹیکنالوجی کی بنیاد ہیں، تیز ترین فیڈ بیک کو ممکن بناتا ہے۔ واضح رہے، یہ پلیٹ فارم جہاں پاکستان کو ایک نئی ٹیکنالوجی سے رُوشناس کروا رہا ہے، وہیں نوجوانوں کو ایک نیا میدان بھی فراہم کر رہا ہے، جس میں ان کے پاس قیادت بھی ہوگی اور مہارت بھی۔
امید ہے کہ یہ ایجاد، سلیکون ویلی کے لیے اکاؤنٹنگ کے میدان میں ایک چیلنج ثابت ہوگی،تو دوسری طرف، پاکستانی نوجوانوں کو اِس آرٹی فیشل انٹیلی جینس پلٹ فارم سے منسلک ہو کر عالمی سطح پر اعتماد حاصل ہوگا، جو کسی بھی مُلک کی سافٹ پاور کے لیے اہم ترین ہے۔ بھارت، چین اور جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک نے آئی ٹی کے شعبے میں رواں صدی کے اوائل میں بہت کام کیا، اِسی لیے ان ممالک کے ماہرین عالمی کمپنیز اور اداروں کو لیڈ کر رہے ہیں اور اپنے ممالک کو ایک نئی شناخت دے رہے ہیں۔
سلیکون ویلی امریکا کا وہ ٹیکنالوجی شہر ہے، جو اپنی عالمی ایجادات کے لیے ممتاز ترین مقام کا حامل ہے اور اِس شعبے میں اس کا نام ہی کافی ہے۔ وہاں سرمائے اور مواقع کی کمی نہیں۔ حکومتوں سے لے کر اداروں اور کمپنیز تک اس پر اندھا اعتماد کرتے ہیں۔ اس کی تخلیق کردہ پراڈکٹس، فوراً مارکیٹ میں داخل ہوجاتی ہیں۔ گویا جو ممالک اب اقتصادی ترقّی کے خواہاں ہیں، اُن کا پہلا انتخاب سلیکون ویلی ہے۔ اِس ضمن میں سرل پلیٹ فارم کے لیے چیلنج واضح ہے۔
اِسے یہ ثابت کرنا ہوگا کہ اس کے سافٹ ویئر آئیڈیاز اور حل مختلف ممالک میں کارآمد، سَستے اور آسان طریقوں سے استعمال کیے جاسکتے ہیں۔ نیز، ٹیکنالوجی ٹرانسفر یا ان کی ضروریات کے مطابق حل پیش کرنا بھی آتا ہو۔ یاد رہے، جو پلیٹ فارمز خودکار ٹُولز استعمال کرتے ہیں، اُن سے غلطیاں بھی ممکن ہیں، تاہم اہم یہ ہے کہ آپ اس غلطی کو جانچیں اور درست کریں۔ یہ اگر ممکن ہوا، تو سلیکون ویلی یا کسی بھی ایسے عالمی ادارے سے مقابلہ یا تعاون حاصل کرنا مشکل نہیں ہوگا۔
سوال یہ بھی ہے کہ سرل جیسے پلیٹ فارمز کیوں اہم ہیں اور یہ پاکستانی نوجوانوں اور بزنس کو کیسے نئے مواقع دیتے ہیں۔ اوّل تو یہ وہ شعبہ ہے، جسے بہت خشک تصوّر کیا جاتا ہے، اِسی لیے اس میں بہت کم کام ہوا ہے۔ دوم، پاکستان جیسے ممالک میں چھوٹے کاروبار کی ایک خاص اہمیت ہے، بلکہ یہ بزنس کی جڑ ہیں۔ اب اگر اِس جڑ کی آب یاری جدید ٹیکنالوجی سے کی جائے اور وہ بھی اپنے اوورسیز اور مقامی ٹیلنٹ کے اشتراک سے، تو یہ ایک بڑا بریک تھرو ہوگا۔
جب مصنوعی ذہانت کے استعمال کی بات آتی ہے، تو پس ماندہ ممالک ایک خاص دائرے سے باہر نہیں نکل پاتے۔ وہ عموماً پٹے پٹائے ماڈلز کی پیروی کرتے ہیں، اِس لیے کبھی بھی فرنٹ لائن میں نہیں آتے، تخلیق تو بہت دُور کی بات ہے۔ اکاؤنٹنگ کا شعبہ بظاہر اے ایل اور آٹومیشن کے لیے غیر روایتی ہے، لیکن دنیا اس کی طرف تیزی سے بڑھ رہی ہے۔
امریکا میں مقیم پاکستانی نوجوانوں کی جانب سے سرل پلیٹ فارم جیسا تخلیقی کام ایک اہم پیش رفت تو ہے ہی، اِس سے بڑی بات یہ ہے کہ یہ اوورسیز پاکستانیوں کے لیے بھی ایک بہتر مثال ہے کہ کس طرح’’فرسٹ ورلڈ‘‘ ممالک میں رہ کر اُن کی اعلیٰ تعلیم اور جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ کرتے ہوئے عالمی سطح پر پلیٹ فارمز قائم کیے جائیں اور اُن میں نہ صرف اپنے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کا ٹیلنٹ شامل ہو، بلکہ مُلکی تعمیر وترقّی میں مؤثر کردار بھی ادا کیا جائے۔