• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اقوام متحدہ: اردوان نے زخمی فلسطینی بچوں کی تصاویر لہرا کر عالمی ضمیر جھنجھوڑ دیا، مسئلہ کشمیر بھی مزید اجاگر کیا

ترک صدر رجب طیب اردوان قوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کر رہے ہیں—
ترک صدر رجب طیب اردوان قوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کر رہے ہیں—

ترک صدر رجب طیب اردوان نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 80ویں اجلاس میں ولولہ انگیز اور عالمی برادری کے ضمیر کو جھنجھوڑ دینے والا خطاب کیا ہے۔

ان کی تقریر کا سب سے اہم لمحہ وہ تھا جب انہوں نے غزہ کے معصوم بچوں کی خون آلود اور اعضاء سے محروم تصاویر لہرا کر دنیا کو جھنجھوڑا لیکن ان کا خطاب صرف فلسطین تک محدود نہ رہا، انہوں نے بھارت کے مظلوم کشمیری عوام کا مقدمہ بھی عالمی برادری کے سامنے بھرپور انداز میں پیش کیا اور کہا کہ اس مسئلے کا منصفانہ حل جنوبی ایشیاء اور عالمی امن کے لیے ناگزیر ہے۔

فلسطین کا خون آشام المیہ

صدر اردوان نے کہا کہ گزشتہ 23 ماہ سے ہر گھنٹے کے بعد ایک فلسطینی بچہ اسرائیلی بمباری کا نشانہ بن کر زندگی سے محروم ہو رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ محض اعداد و شمار نہیں، یہ ہر بچہ ایک کہانی ہے، ایک کائنات ہے جو مسمار کر دی گئی۔

ترک صدر نے ایوان کے سامنے 3 تصاویر دکھائیں جن میں زخمی اور معذور بچے، کھنڈر میں تبدیل محلے اور دربدر فلسطینی خاندان دکھائے گئے، ایوان لمحوں کے لیے ساکت ہو گیا۔

اردوان نے اسرائیل پر الزام لگایا کہ وہ صرف انسانوں کو نہیں بلکہ درختوں، جانوروں اور زمین کو بھی تباہ کر رہا ہے، صدیوں پرانے زیتون کے باغ اجاڑ دیے گئے ہیں، پانی کو زہر آلود کر دیا گیا ہے، زمین بنجر بنا دی گئی ہے۔

کشمیر: جنوبی ایشیاء کے امن کی کلید

اردوان نے اپنی تقریر میں واضح اور دو ٹوک انداز میں کہا کہ جنوبی ایشیاء کا امن مسئلہ کشمیر کے حل کے بغیر ممکن نہیں۔

انہوں نے بھارت اور پاکستان کے درمیان اپریل میں ہونے والی جنگ بندی کا خیرمقدم کیا، مگر اس کے ساتھ ہی خبردار کیا کہ اگر کشمیر کے مسئلے کو اقوامِ متحدہ کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق حل نہ کیا گیا تو خطہ مسلسل کشیدگی اور خطرات کی لپیٹ میں رہے گا۔

انہوں نے کہا کہ ہم ایک بار پھر دہراتے ہیں کہ کشمیر محض ایک سرحدی تنازع نہیں بلکہ کروڑوں انسانوں کے بنیادی انسانی حقوق کا سوال ہے، جب تک کشمیری عوام کو حقِ خودارادیت نہیں ملتا خطے میں حقیقی امن قائم نہیں ہو سکتا۔

یہ بات اس لیے بھی اہم ہے کہ اردوان نے گزشتہ سال اپنی تقریر میں کشمیر کا ذکر نہیں کیا تھا، مگر اس بار انہوں نے اس موضوع کو ایک مرکزی نکتہ بنا کر پیش کیا اور عالمی برادری کو جھنجھوڑا کہ وہ خاموش تماشائی نہ بنی رہے۔


دیگر علاقائی اور عالمی معاملات

اردوان نے شام، ایران اور عراق کی صورتحال پر بھی روشنی ڈالی اور خطے میں مزید بحرانوں سے بچنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ہمارا خطہ ایک اور ایٹمی یا عسکری بحران کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

قبرص کے بارے میں انہوں نے ترکیہ کے دیرینہ مؤقف کو دہرایا اور کہا کہ ترک قبرصی ہرگز اقلیت کا درجہ قبول نہیں کریں گے۔ انہوں نے شمالی قبرص کو تسلیم کرنے کی اپیل کی اور خبردار کیا کہ مشرقی بحیرۂ روم میں کسی بھی منصوبے کی کامیابی ترکیہ اور شمالی قبرص کو شامل کیے بغیر ممکن نہیں۔

ترک صدر نے امریکا اور یورپی یونین کے ساتھ تعلقات میں نئے دور کی بات کی اور اعلان کیا کہ ترکیہ 2026ء میں نیٹو سربراہی اجلاس کی میزبانی کرے گا، اس کے ساتھ ہی انہوں نے افریقہ، لاطینی امریکا اور ایشیا کے ساتھ تعلقات کو مزید مستحکم بنانے پر زور دیا۔

اسلاموفوبیا اور خاندانی اقدار

اردوان نے اسلاموفوبیا، نسل پرستی اور اجنبیت کے بڑھتے رجحانات کو سختی سے تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ یہ رجحانات عالمی بقائے باہمی کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔

انہوں نے اقوام متحدہ کے اسلاموفوبیا کے خلاف نمائندہ مقرر کرنے کے اقدام کا خیرمقدم کیا۔

خاندان کے حوالے سے ترک صدر نے کہا کہ خاندان کا دفاع دراصل انسانیت اور مستقبل کا دفاع ہے۔

اصلاحات کی اپیل

خطاب کے اختتام پر اردوان نے ایک بار پھر اپنی مشہور اپیل دہرائی کہ ’دنیا 5 سے بڑی ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ عالمی نظام کو درست کرنا ضروری ہے تاکہ طاقت کے بجائے انصاف کو فوقیت ملے۔

صدر اردوان کی اس تقریر نے جہاں فلسطین کے حوالے سے دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑا، وہیں مسئلہ کشمیر کو عالمی ایجنڈے پر دوبارہ لا کھڑا کیا، ان کے الفاظ کشمیری عوام کے لیے امید کی ایک نئی کرن تھے کہ ان کی آواز عالمی ایوانوں میں دبائی نہیں جا سکتی۔

ترک صدر رجب طیب اردوان کی تقریر کا سب سے اہم لمحہ وہ تھا جب انہوں نے غزہ کے معصوم بچوں کی خون آلود اور اعضا سے محروم تصاویر لہرا کر دنیا کو جھنجھوڑ ڈالا۔

انہوں نے کہا کہ غزہ میں انسانیت مر رہی ہے، گزشتہ ایک صدی میں انسانیت نے اس قدر ہولناک اور سفاکانہ مناظر کبھی نہیں دیکھے، آج کا دن انسانیت کی خاطر فلسطینی مظلوموں کے شانہ بشانہ ڈٹ جانے کا دن ہے۔

ہم اقوامِ متحدہ میں فلسطینی عوام کی آواز ہیں

صدر اردوان نے فلسطینی صدر محمود عباس کی غیر موجودگی پر افسوس ظاہر کیا اور کہا کہ یہاں ناصرف اپنے شہریوں کے ترجمان بننے کے لیے موجود ہیں بلکہ اُن فلسطینی عوام کی آواز بلند کرنے کے لیے بھی کھڑے ہیں جن کی صدائیں دبانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔

انہوں نے غزہ کی روزمرہ زندگی کی دل دہلا دینے والی تصویر دکھاتے ہوئے کہا کہ سوچیں! کیا 2025ء میں اس طرح کی درندگی کا کوئی جواز پیش کیا جا سکتا ہے؟ یہ انسانیت کے لیے کھلا تماشہ ہے۔

غزہ میں ہر گھنٹے ایک بچہ شہید ہو رہا ہے

ترک صدر نے کہا کہ غزہ میں دنیا کی آنکھوں کے سامنے 700 دن سے زیادہ عرصے سے نسل کشی جاری ہے، شہید ہونے والوں کی تعداد 65 ہزار سے تجاوز کر گئی ہے اور اب بھی بے شمار لاشیں ملبے تلے دبی ہیں، ہر گھنٹے ایک معصوم بچہ زندگی سے محروم ہو رہا ہے، یہ اعداد و شمار نہیں بلکہ ہر ایک جان ایک انسان ہے، ایک معصوم روح ہے۔

انسانیت نے پچھلے 100 سال میں ایسی بربریت نہیں دیکھی

صدر اردوان نے کہا کہ یہ دہشت گردی کے خلاف جنگ نہیں بلکہ قبضہ، جلاوطنی اور کھلی نسل کشی ہے، اسرائیل شام، ایران، یمن اور لبنان کو نشانہ بنا کر پورے خطے کے امن کو تباہ کر رہا ہے۔

انہوں نے عالمی رہنماؤں سے مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ فلسطینی مظلوموں کے شانہ بشانہ کھڑے ہوا جائے، نسل کشی کے ذمے داروں کو عالمی قانون کے کٹہرے میں لایا جائے۔

جنوبی ایشیاء کا امن مسئلہ کشمیر کے حل کے بغیر ممکن نہیں

اردوان نے اپنی تقریر میں واضح اور دو ٹوک انداز میں کہا کہ جنوبی ایشیا کا امن مسئلہ کشمیر کے حل کے بغیر ممکن نہیں۔

انہوں نے بھارت اور پاکستان کے درمیان اپریل میں ہونے والی جنگ بندی کا خیرمقدم کیا، مگر اس کے ساتھ ہی خبردار کیا کہ اگر کشمیر کے مسئلے کو اقوام متحدہ کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق حل نہ کیا گیا تو خطہ مسلسل کشیدگی اور خطرات کی لپیٹ میں رہے گا۔

انہوں نے کہا کہ کشمیر محض ایک سرحدی تنازع نہیں بلکہ کروڑوں انسانوں کے بنیادی انسانی حقوق کا سوال ہے، جب تک کشمیری عوام کو حقِ خودارادیت نہیں ملتا، خطے میں حقیقی امن قائم نہیں ہو سکتا۔

یہ بات اس لیے بھی اہم ہے کہ اردوان نے گزشتہ سال اپنی تقریر میں کشمیر کا ذکر نہیں کیا تھا، مگر اس بار انہوں نے اس موضوع کو ایک مرکزی نکتہ بنا کر پیش کیا اور عالمی برادری کو جھنجھوڑا کہ وہ خاموش تماشائی نہ بنی رہے۔

روس-یوکرین جنگ اور عالمی امن

اردوان نے کہا کہ ہم اس اصول پر قائم ہیں کہ جنگ کا کوئی حقیقی فاتح اور انصاف پر مبنی امن کا کوئی نقصان اٹھانے والا نہیں ہوتا، اسی سوچ کے تحت جنگ بندی کے لیے کوششیں جاری رہیں گی۔

مشرقی بحیرۂ روم اور عالمی معاملات

صدر اردوان نے قبرص کے مسئلے پر کہا کہ جزیرۂ قبرص پر دو الگ ریاستیں اور دو الگ قومیں موجود ہیں، ترک قبرصی عوام جزیرے کے برابر کے شریک ہیں اور کبھی بھی اقلیت کا درجہ قبول نہیں کریں گے، عالمی برادری کو چاہیے کہ نصف صدی سے جاری غیر منصفانہ تنہائی کا خاتمہ کرے اور شمالی قبرصی ترک جمہوریہ کو تسلیم کرے۔

مصنوعی ذہانت، خاندان اور عالمی انصاف

انہوں نے کہا کہ مصنوعی ذہانت انسانیت کے خلاف نہیں بلکہ انسانیت کے لیے استعمال ہونی چاہیے، آج خاندان پہلے کبھی نہ دیکھی جانے والی شدت سے خطرے میں ہیں اور ہم اس کا دفاع کرتے رہیں گے۔

دنیا 5 سے عظیم تر ہے

صدر اردوان نے ایک بار پھر اقوام ِمتحدہ کے ویٹو سسٹم پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ہم اس وقت تک ’دنیا 5 سے بڑی ہے‘ کہتے رہیں گے جب تک ایسا نظام قائم نہ ہو جائے جہاں طاقتور نہیں بلکہ حق دار کو فوقیت حاصل ہو، بلا شبہ ایک زیادہ منصفانہ دنیا ممکن ہے اور ترکی اس کی تعمیر کے لیے جدوجہد جاری رکھے گا۔

بین الاقوامی خبریں سے مزید