کہا جاتا ہے کہ خواب اور حقیقت کے درمیان اتنا فاصلہ نہیں ہونا چاہیے جسے طے نہ کیا جاسکے۔ دونوں کے درمیان کوئی ربط تو ہو۔ تاہم اگر ان کے درمیان حارج فاصلہ بے حدو حساب ہے تو پھر ایسا تصادم ناگزیر ہوجائے گا جس کے ناقابل تصور نتائج ہوں گے نہ صرف یہ کہ ماضی کے اوراق ایسے واقعات سے عبارت ہیں بلکہ ان کے تواتر میں وقت گزرنے کے ساتھ اضافہ بھی ہوا ہے ۔ اس کی وجہ سے پہلے سے کہیں زیادہ فالٹ لائنز ابھری ہیں ۔ ہم ایک عجیب دنیا میں رہتے ہیں ، جو ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید حیران کن ہوتی جارہی ہے ۔ وہ ممالک جہاں جمہوریت اور مستقبل تعمیر کرنے کے خواب روایتی طور پر اپنے تمام تر لوازمات کے ساتھ موجودرہے ہیں ، وہاں بھی ایسے امکانات کے پیمانے تنگ ہوتے جارہے ہیں ۔ کسی ملک میں حقوق کی جانچ کیلئے اظہار رائے کی آزادی سب سے برمحل پیمانہ ہے۔ ایک تجربہ کار صحافی مارٹن بیرن کے ایک حالیہ مضمون ، ’’خطرے سے دوچارپریس سے عالمی سبق‘ ‘ کے مطابق’ میں نہیں سمجھتا کہ امریکہ میں آئینی نظم برقرار رہے گایا یہ کہ قانون کی حکمرانی قائم رہے گی۔ یا یہ کہ پریس بلکہ تمام امریکیوں کیلئے آ زادی اظہار یقینی بنائی جائے گی۔ ‘‘انہوں نے مزید کہا: ’’اور شاید میرے لیے سب سے زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ اب ہم ایک ایسے دور میں رہتے ہیں جب لوگ سچ اور جھوٹ کے درمیان تمیز کرنے سے قاصر ہیں، یا اس کیلئے تیار نہیں ۔پھر بھی، آج ہم اس بات پر متفق نہیں ہو سکتے کہ کسی حقیقت کا تعین کیسے کیا جائے۔ وہ تمام عناصر جن پر ہم نے تاریخی طور پر انحصار کیا ہے ۔تعلیم، مہارت، تجربہ اور سب سے بڑھ کریہ کہ ثبوت اور شواہد کو مسترد کرکے دیا گیا ہے۔‘‘یہ الفاظ امریکہ میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کا ایک چھوٹا سا عکس ہیں جہاں کچھ عرصہ پہلے تک یہ تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا کہ پہلی ترمیم کی موجودگی میں بنیادی انسانی آزادیوں پر کوئی قدغن لگائی جا سکتی ہے۔ لیکن ایسا ہو چکا ۔ ریاست میں حقوق خطرے کی زد میں ہیں ۔
مارٹن جمہوریت اور آزاد پریس کے درمیان ایک متوازی لکیر کھینچتے ہیں۔ بنیادی حقائق کا تعین کرنے میں ہماری ناکامی سے بات شروع کرتے ہوئےکہتے ہیں ’’ ایک آزاد پریس جمہوریت کے بغیر اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتا۔ اور دوسرے الفاظ میں، جمہوریت آزاد پریس کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی‘‘۔ آمروں کا اصل ہدف سچائی ہے ’’ تاکہ وہ تمام آزاد ثالثوں کو تباہ کر دیں، چاہے وہ جج، اسکالر، سائنسدان، شماریات دان یا صحافی ہوں ‘‘۔ آئیے اس حقیقت کا بھی سامنا کرتے ہیں کہ جب آمروں کی طرف سے سچائی کو مساوات سے نکال دیا جاتا ہے تو ریاستی ادارے کرپٹ ہوجاتے ہیں اور معاشرتی ترقی رک جاتی ہے۔ اس وقت زوال ہمیں واپس تاریک گلیوں میں لے جاتا ہے ۔
پاکستان میں ہمارے لیے یہ بات جانی پہچانی لگتی ہے۔ طویل عرصے سے اس طرح کے سلوک کے عادی ہونے کےباوجود عجیب لگتا ہے کہ یہ سب کچھ امریکہ میں بھی ہو سکتا ہے. یہ تیزی سے ایک رجحان کے طور پر ابھر رہا ہے جو جمہوری ممالک سمیت پوری دنیا کو متاثر کر رہا ہے۔ اس کے باوجود ریلیف کیلئے فعال میکانزم بالخصوص عدلیہ کی موجودگی میں اس حملے کا مقابلہ کرنا اب بھی ممکن ہو سکتا ہے، لیکن جن ممالک میں ادارے طویل عرصے سے تباہ ہو چکے ہیں، وہاں نجات کا کوئی راستہ نہیں کیونکہ ناانصافی اور محرومی کے تاریک سائے دراز ہوتے جاتے ہیں ۔ توکیا ہمیں اس امکان کے ساتھ سمجھوتہ کرلینا چاہیے کہ ہم ایک مجبور و مقہور دنیا کی طرف جا رہے ہیں جہاں سچ اور جھوٹ میں تمیز کرنا مشکل ہو گا اور حقائق نامعلوم ہی رہیں گے؟جہاں صحیح کو غلط سے جدا نہیں کیا جائے گا اور جہاں روشنی اوراندھیرے کی تمیز مٹ چکی ہو گی؟ جہاں غیر یقینی صورتحال ہمارے عقائد اور فیصلوں کو تباہ کر دے گی؟ اور جہاں مستقبل میں قدم رکھنا نامعلوم میں اترنے کے مترادف ہو گا؟غیر یقینی پن کی گہری فضا میں آگے کا راستہ تلاش کرنا کم و بیش ناممکن ہو گا۔
تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ آزادیوں کا گلا گھونٹنے سے کبھی بھی آمریت کا مقصد پورا نہیں ہوا۔ نیز یہ عصرحاضر میں قابل عمل نہیں جہاں لوگ طویل عرصے سے آئینی طور پر یقینی آزادیوں سے لطف اندوز ہونے کے عادی ہیں، خاص طور پر جمہوری دنیا میں۔ انسانی فطرت ایسی ہے کہ بے جا سختی لامحالہ مزاحمت کو جنم دیتی ہے جس کی شدت اور سمت کا اندازہ لگانا ناممکن ہے۔ یہ ان منطقوں کو بھی اپنی زد میں لے سکتی ہے جو سردست ممنوعہ علاقے ہیں ۔ ہو سکتا ہے کہ کل ان پر کسی کا کنٹرول نہ رہے ۔ جس کٹھن دور سے ہم گزررہے ہیں ، اس میں سب سے زیادہ اہمیت عقل کو دی جانی چاہیے۔ میں خوابوں اور حقیقتوں اور ان کو الگ کرنے والی حد فاصل کی بات کرتا ہوں۔ فطری طور پردونوں زندگی کے کلیدی اجزا ہیں جن کو محفوظ کیا جانا چاہیے ۔ غیر معقول پابندیاں لگانا اس کا علاج نہیں ۔ ہمیں اپنے درمیان موجود معقولیت کی آوازوں کو اپناجادو طاری کرنے کا موقع دینا چاہیے ۔ ان کی جگہ بنانے کیلئے سازگار حالات پیدا کیے جائیں ۔ آزادی ہی نجات کا نسخہ ہے کیوں کہ گھٹن زدہ معاشرے ایسے خطرے سے دوچار ہوجاتے ہیں جس کے مہیب سائے ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں ۔
یہاں احتیاط درکار ہے۔ زخموں کو ناسور میں بدلنے سے بچانا ہو گا۔ ایسا نہ ہو کہ بیماری بگڑ کر مرض الموت بن جائے اور پھر بہترین معالج بھی اس کا علاج نہ کر سکیں ۔ پاکستان کو متعدد جہتیں رکھنے والے سنگین چیلنجوں کا سامنا ہے جن سے اغماض نہیں برتا جا سکتا۔ یہ بھی خواہش نہیں کی جا سکتی ہے کہ اگر ان سے صرف نظر کرلیں تو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ خود ہی ٹھیک ہوجائیں گے ۔ اگرمحدود مفاد پر توجہ رہے تو مستقل علاج نہ ہو سکے گا۔ ہو سکتا ہے کہ اس کی وجہ سے زخم وقتی طور پر چھپ جائے ، لیکن اس کا علاج اگر ناممکن نہیں تو بھی انتہائی مشکل ضرور ہوجائے گا۔ اس کے سنگین نتائج سب کو بھگتنا پڑیں گے۔آخر میں، یہ ایک خواب، ایک قدم کا سوال باقی رہے گا: خواب یہ ہے کہ پاکستان کو معاشی بحالی کے ساتھ ایک مضبوط ملک کے طور پر ابھرتے ہوئے دیکھا جائے، اور وہ ایک قدم اتحاد کو قائم کرنے اور سیاسی مفاہمت کیلئے ایک ایسا عمل شروع کرنے کے عزم کی عکاسی کرے گا جس میں تمام اسٹیک ہولڈرز شامل ہوں جو کہ قومی مقدر کو تشکیل دینے میں اپنا کردار ادا کریں۔ کسی کو بھی اس کوشش سے بے دخل نہیں کیا جانا چاہئے ۔ تمام تعصبات کو دفن ، اور تمام پسند اور ناپسند کو مسترد کر دیا جانا چاہئے کیونکہ اس طرح کے ایک یادگار کام کو پھولی ہوئی انا کی بھینٹ نہیں چڑھایا جا سکتا ۔ آئین میں درج دیگر آزادیوں کے علاوہ آرٹیکل 14 ریاست سے کہتا ہے کہ وہ لوگوں کے وقار کو پامال ہونے سے بچائے ۔ یہ تمام آزادیوں کی کلید ہے۔ لوگوں کی عزت نفس کو چھیننا نہ تو قانون کو منظور ہے اور نہ ہی انسانیت کو۔ آئیے لوگوں کو ان کے وقار اور آزادی کے حق سے محروم نہ کریں۔ آئیے انھیں ملک کے مقدر کا ستارہ مان لیں ۔ ہم سوختہ جاں آگ کی بھٹی میں گر چکے ہیں ۔ ہمیں باہر نکلنے کی ضرورت ہے ۔ وقت پکارتا ضرور ہے ، انتظار نہیں کرتا۔
(کالم نگار پی ٹی آئی کے رہنما ہیں)