• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سنگین سے سنگین تر اسکینڈلوں کے بڑھتے ہوئے انبار کو دیکھتے ہوئے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ کس پر بات شروع کی جائے ۔ غزہ جنگ ختم کرانے کے مجوزہ منصوبے اوردولت مشترکہ آبزرور گروپ کی رپورٹ ، جسے اٹھارہ ماہ کی مجرمانہ تاخیر کے بعد عوام کے سامنے پیش کیا گیا، سے لے کر شمع جونیجو واقعے تک سے پتہ چلتا ہے کہ آخر کار غیر آئینی اور غیر قانونی حکومت کے چہرے سے نقاب سرک چکا ہے ۔

ٹرمپ کا غزہ تصفیہ منصوبہ بنیادی طور پر نسل کشی کو جائز قرار دینے کی کوشش ہے ۔ اب تک بچوں اور حاملہ خواتین سمیت 65ہزار افراد اس آگ میں بھسم ہو چکے ہیں ۔کم و بیش دو سال سے جاری اسرائیل کی وحشیانہ اور سفاکانہ فوجی کارروائی نے تمام پٹی کو ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا ہے ۔ گھر ، دکان ، دفتر سب برابر زمیں بوس ہو چکے ۔ جارح کا کوئی ذکر نہیں ، اور نہ ہی یہ کہ کیا اس غیر معمولی نسل کشی کے گھناؤنے ارتکاب پر اس کا مواخذہ ہو گا۔ فلسطینی ریاست کے قیام کا کوئی منصوبہ نہیں ، مظلوم اور فاقوں کا شکار افراد کی بحالی اور ریلیف کی کوئی سوچ نہیں ۔یہ تمام کارروائی ایک نئے نوآبادیاتی نظام کی طرح دکھائی دیتی ہے جس کا مقصد خطے میں اپنی مہلک موجودگی کو تقویت دے کر اسے مستقل غلامی کی زنجیریں پہنانا ہے ۔

عوام دیکھ رہے ہیں کہ خطے کی تمام مسلم قیادت سرنگوں ہو چکی ۔ ایسا لگتا ہے کہ ہر لیڈر برسرالزام آئے گا۔ کس طرح ایسے منصوبے پر متفق ہوا جا سکتا ہے جو فلسطینی عوام کے حقوق کا تحفظ نہیں کرتا، ان کی آزاد ریاست کی یقین دہانی نہیں کراتا، اس ناقابل بیان اذیت سے رہائی کا چارہ نہیں کرتااور قہر یہ کہ انہی پر سفاک ڈیل منظور کرنے کا دباؤ ہے ، ورنہ وہ مکمل خاتمے کے لیے تیار رہیں ! کیا عالمی ضمیر مردہ ہو چکا ہے ؟اور مسلمان حکمرانوں نے کس کے عوض اپنی روحیں بیچ ڈالی ہیں ؟

پاکستانی حکومت کی جانب سے ٹرمپ پلان کو قبول کرنے کے ساتھ ساتھ انھیں اس کے معمار کو سراہنا فلسطینی عوام اور ان تمام لوگوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے جو ایک آزاد ریاست حاصل کرنے کے اپنے ناقابل تنسیخ حق کے لیے بہادری سے لڑ رہے ہیں۔ امریکہ سمیت دنیا ماضی میں کسی نہ کسی معاہدے کے مطابق فلسطینی ریاست کی منظوری پر مہر ثبت کرتی رہی ہے جسے اب بغیر کسی احساس ندامت کے داخل دفتر کردیا گیا ہے ۔ اور تصور کریں! ٹونی بلیئر، جسے امریکہ کی عراق جنگ میں اپنے کردار کی وجہ سے انسانیت کے خلاف گھناؤنے جرائم کے ارتکاب کے الزامات کا سامنا کرنے کے لیے ہیگ میں ہونا چاہیے تھا، کا نام غزہ کی بین الاقوامی عبوری اتھارٹی کے سربراہ کے طور پر تجویز کیا گیا ہے۔ ظاہر ہے، انسانی حقوق کے حوالے سے اتنا بے ضمیر شخص اور کہاں سے ملے گا جو فلسطینی عوام کی مسلسل نسل کشی کرنے والوں کے شانہ بشانہ کھڑا دکھائی دے ۔ مجوزہ تقرری پر تبصرہ کرتے ہوئےکسی نے ایک حالیہ ٹیلی ویژن پروگرام میں کہا کہ صرف اسی انتخاب سے پتہ چلتا ہے کہ شیطان اس کام کے لیے دستیاب نہیں تھا۔

یہ بات قابل فہم ہے کہ ریاست ماضی قریب سے جن پالیسیوں پر عمل پیرا ہے، اس کے لیے مغربی حمایت حاصل کرنا بہت ضروری ہے، خاص طور پر امریکہ کی۔ لیکن ایسا کرتے ہوئےاسے یہ بھی سوچنا ہوگا کہ ایسے تزویراتی سمجھوتے کرنے سے آنیوالے وقت میں اس کی اپنی خودمختاری اور آزادی پر سوالیہ نشان لگ سکتا ہے۔ تاریخ ہمیں یہی سکھاتی ہے لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہم سبق سیکھنے سے گریزاں ہیں اور فی الحال اس مذموم کھیل میں پسندیدہ شراکت دار ہونے کے ہوائی قلعے تعمیر کیے جارہے ہیں ۔ ریاست کیوں شرمناک حد تک ماتحتی کا رویہ اختیار کر رہی ہے، اس کی وجہ 8 فروری 2024 کے پاکستان کے عام انتخابات پر دولت مشترکہ آبزرور گروپ کی رپورٹ کے مندرجات سے معلوم کی جا سکتی ہے۔ اسے اٹھارہ ماہ سے زیادہ کے مجرمانہ وقفے کے بعد جاری کیا گیا ہے، اور وہ بھی صرف اس وقت جب ڈراپ سائٹ کے ذریعے اس کے مواد کو لیک کیا گیا ۔ ٹیلی گراف نے اس خبر کو’’دولت مشترکہ کی پاکستانی انتخابی دھاندلی میں مدد‘‘ کے طور پر رپورٹ کیا۔ رپورٹ تصدیق کرتی ہے کہ انتخابات میں کس قدر کھلی ڈھٹائی سے دھاندلی کی گئی تاکہ کچھ پارٹیوں کو فائدہ ہواور مقبول ترین پارٹی اور اس کے لیڈر کو اقتدار سے باہر رکھا جا سکے۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان پر بڑے پیمانے پر نظر ثانی کرنے اوراس کے مختلف شعبوں کی فعالیت کو بہتر بنانے کی سفارشات کے علاوہ رپورٹ میں ایک پارٹی کو نقصان پہنچانے کے لیے کیے گئے متعدد اہم اقدامات کی فہرست موجود ہے۔یہ رپورٹ انتخابات سے پہلے ، انتخابات کے دن اور بعد میں ہونے والی پیش رفت کا احاطہ کرتے ہوئے تمام انتخابی عمل کو مورد الزام ٹھہراتی ہے ۔ گروپ اس تصور کو جھٹلاتا ہے کہ سکیورٹی مقدم ہے ، چاہے اس کے لیے جمہوریت کو جتنا بھی نقصان پہنچ جائے ۔اس کے علاوہ رپورٹ نے درجنوں اقدامات کی فہرست بنائی ہے جو ملک میں شفاف اور آزادانہ انتخابات کے انعقاد کی راہ میں  رکاوٹ  ہیں ۔ ان میں بنیادی سیاسی حقوق پر قدغن ، پاکستان تحریک انصاف کی آزادانہ طور پر انتخابات میں حصہ لینے میں حائل رکاوٹیں ، انتخابات سے قبل ایسے اقدامات جو انتخابی عمل کی شفافیت پر اثر انداز ہوتے ہیں ، جیسا کہ تحریک انصاف کے امیدواروں کو بلے کا انتخابی نشان نہ ملنا ، صحافیوں کو آزادانہ طریقے سے کام نہ کرنے دینا اور تحریک انصاف کے اراکین کی مبینہ حراست ، جن میں کچھ غیر علانیہ طور پر غائب بھی کردیے گئے ہیں۔الیکشن کی رات موبائل فون بند کرنے اور حکمران جماعت کی طرف سے میڈیا پر ریاستی کنٹرول نے انتخابی عمل کی شفافیت کو نمایاں طور پر کم کیا اور نتائج کی فراہمی کی کارکردگی کو متاثر کیا جس سے انتخابی عمل کی ساکھ، شفافیت اور جامعیت متاثر ہوئی۔ پولنگ اسٹیشن کے نتائج کے فارم اور حلقہ کی سطح پر مرتب کردہ نتائج کے فارم کے درمیان بہت سے تضادات کو نوٹ کیا گیا ۔

یہ اتنی نقصان دہ رپورٹ ہے جس کا تصور کیا جا سکتا ہے ۔ آٹھ فروری کو اس کے اجرا کے بعد دھاندلی زدہ انتخابات عوامی اعتبار اور قانونی ساکھ سے محروم ہو چکے ہیں ۔ ریاست عوام کی عدالت میں برہنہ کھڑی ہے جن کا مینڈیٹ اس نے اقتدار کی کرسیوں پر من پسند افراد کو متمکن کرنے کے لیے چرایا۔ دھوکہ دہی ، فریب اور فراڈ کے اس عمل نے پاکستان کو مفلس تر کردیا ہے ۔ داخلی ہیرا پھیری بیرونی کمزوری کا باعث بنتی ہے۔ یہ سنجیدہ خود شناسی کا لمحہ ہے۔ سیاسی عدم استحکام اور اس کے نتیجے میں معاشی اور تزویراتی بگاڑ کی وجہ سے کیا پاکستان مسلسل گراوٹ کا متحمل ہو سکتا ہے؟ تدارک کی حکمت عملی دعوت فکر دیتی ہے۔ کسی کو اس حقیقت کا سامنا کرنا ہوگا کہ موجودہ من گھڑت نظام قانونی جواز کے بغیر ان چیلنجوں کا سامنا نہیں کر سکتا جو اسے درپیش ہیں۔ ناقابل تلافی نقصان سے پہلے یقیناً فوری اور بامعنی تبدیلی ناگزیر ہو چکی ہے ۔

(کالم نگار پی ٹی آئی کے رہنما ہیں)

تازہ ترین