• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تاریخ کے طالب علم اس بات کابخوبی اوربغور جائزہ لے رہے ہیں کہ مسلم امہ میں اتحاد کی آواز ہمیشہ کسی بڑے سانحہ کے بعد ہی جنم لیتی ہے۔ 1967ء کی اسرائیل عرب جنگ کے نتیجے میں القد س شریف پر قبضے کے بعد 1969ء میں مراکش کے دارالحکومت رباط میں مسلم ممالک کے سربراہان کا اجلاس منعقد ہوا اور طے پایا کے مسلم امہ کے مسائل اور خطرات سے نمٹنے کیلئے ایک مشترکہ فورم تشکیل دینا چا ہیے لہٰذا او آئی سی یعنی آرگنائزیش آف اسلامک کنٹریز تشکیل پائی اور اس کا سیکر ٹریٹ جدہ میں بنایا گیا۔ مگر او آئی سی کا دوسرا سربراہی اجلاس 1972ء میں لاہو ر میں منعقد ہواجب 1971ء کی پاک بھارت جنگ کے بعد پاکستان اپنے مشرقی بازوسے محروم ہو چکاتھا۔اس کے بعد افغانستان میں 1979ء میں روسی مداخلت کے بعد 1980ء میں اسلامی سربراہی کانفرنس کا انعقاد ہوا۔دو سال سے غزہ میں اسرائیلی مظالم اور تاریخ کی سب سے بڑی نسل کشی کو رکوانے میں تمام اسلامی ممالک ناکام ہو چکے ہیں۔اسرائیل نے چن چن کر حماس اور حزب اللہ کی قیادت کو شہید کیا۔ ایران میں سول آبادی کو نشانہ بنایا۔ امریکہ نے ایران کا جوہری پروگرام تباہ کرکے اسے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا ورنہ امیدتھی کہ ایران اسرئیلی جارحیت کا منہ توڑ جواب دے کر فلسطین میں اسرائیلی مظالم کابدلہ لے گا مگر امریکہ نے اپنا سارا وزن اسرائیل کے پلڑے میں ڈال دیا اور ایران کے نیو کلیئرپروگرام کو اپنی بمباری کا نشانہ بنا کر اسرائیل کی مدد کی۔ صدر ٹرمپ نے اپنا عہدہ سنبھالنے کے بعد سے عالمی سیاست کے مدو جزر میں طغیانی پیدا کر دی ہے اور خود کو امن کا پیامبر ثابت کرنے کے در پے ہیں۔ کچھ ممالک کو اپنے ٹیرف سے تجارتی محاذ پر مات دینے کی کوشش میں ہیں مگرانکی سب سے بڑی ناکامی یوکرین جنگ کا روس کے ساتھ خاتمہ نہ کرنا ہے۔ شروع میں انہوں نے یوکرین کے صدر کو زبردست پریشر میں لانے کی کوشش کی اور اقوام عالم نے کھلی آنکھوں سے وائٹ ہائوس میں یو کرینی صدر ویلنسکی کی صدر ٹرمپ کے ہاتھوں بے عزتی کا مظاہرہ دیکھا مگر جب یورپ اور خاص طور پر نیٹو کے ممالک یو کرینی صدر کی پشت پناہی پر آئے تو صدر ٹرمپ کو اپنے مئوقف میں لچک پیدا کرنا پڑی اورانہوں نے روسی صدر پوٹن کے ساتھ مذاکرات کا آغا ز کیا۔ مگر تا حال صدر پوٹن نے انکی کوئی بات نہیں مانی اور صدر ٹرمپ روس یوکرین جنگ بند کروانے میں ناکام رہے۔ مگر وہ پاک بھارت جنگ بند کروانے کا تمام کریڈٹ خودلیتے ہیں۔

اسرائیل نے جب قطر پر فضائی حملہ کر کے حماس کی قیادت کو شہید کرنے کی کوشش کی تو اسکے اس قدم نے تمام دنیا خاص طور پر عرب اقوام کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔ قطر کا اربوں ڈالر کا خرید کردہ دفاعی نظام دھرے کا دھرا رہ گیااور اسرئیلی طیارے قطری فضائی حدود میں دندناتے ہوئے داخل ہوئے اور سو ل عمارت میں موجود حماس کی قیادت جو مذاکرات کیلئے موجود تھی ،اس کو اپنی بمباری کا نشانہ بنایا۔ تمام سفارتی، اخلاقی اور قانونی آداب کو بالائے طاق رکھتے ہوئے حماس کے لیڈروں کا قتل عام کیا۔ اسرئیل کے اس اقدام نے عرب ممالک کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ اسرئیلی قتل عام اور حملے کے موقع پر امریکہ ان کی کوئی مدد نہیں کرئیگا اور انہیں اپنے دفاع کیلئے امریکہ پر انحصار چھوڑ کر دوسرے ذرائع تلاش کرنا پڑیں گے ۔ لہٰذا سعودی عرب نے سب سے پہلے آگے بڑھتے ہوئے پاکستان کے ساتھ سٹریٹجک معاہدہ کیا جسکے تحت پاکستان نہ صرف حرمین شریفین کی حفاظت کرے گا بلکہ دونوں ملک کسی تیسرے ملک کی طرف سے حملے کی صورت میں ایک دوسرے کی مدد کریں گے بلکہ سعودی عرب کو پاکستان کی جوہری چھتری کا کور بھی حاصل ہو گا۔ اس معاہدے کے بعد مغربی اور مشرقی دارالحکومتوں میں حیرانی پا ئی گئی اور چہ میگوئیاں شروع ہو گئیں ۔ پاکستانی نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ محمد اسحاق ڈار نے اس معاہدے میں مزید ممالک کے شریک ہونے کا عندیہ بھی دیا ہے۔ مگر اسے اسلامی نیٹو اتحاد کہنا ابھی قبل از وقت ہے۔ سفارتی حلقے ابھی اس کے اثرات کا جائزہ لے رہے ہیں اور کوئی بھی ملک اس پر کھل کر اظہار نہیں کر رہا۔اب آتے ہیں نیو یارک کی طرف جہاں پر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کے موقع پر اسلامی ممالک کے نمائندہ وفد نے امریکی صدر ٹرمپ سے مشترکہ ملاقات کرکے غزہ اور دیگر معاملات پر مسلم ممالک کا مشترکہ مئوقف پیش کیا۔ جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کے برعکس صدر ٹرمپ نے وفد کے ساتھ ملاقات کو اہم قرار دیا اور اس کوشش کو غزہ میں جنگ بند کروانے اور اسرئیلی قیدیوں کو رہا کروانے کا اہم فورم قرار دیا۔ اہم مغربی ممالک فرانس،کینبڈا اور آسٹریلیاوغیرہ نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کر لیا ہے اور امید ہے کہ چند دنوں تک دنیا کے اکثر ممالک فلسطینی ریاست کو تسلیم کرکے فلسطین کے مسئلے کیلئے دو ریاستی حل کے حق میں ووٹ دیں گے ۔

تازہ ترین