• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ماہ ستمبر عالمی اور قومی سطح پر تہلکہ خیز رہا، جس میں پاکستان کا کردار سب سے زیادہ نمایاں اورقابل قبول ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کیا،غزہ میں امن کیلئے نیا معاہدہ سامنے آیا،پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تاریخی دفاعی معاہدہ ہوا۔ اکتوبرتحریک پاکستان کے ممتاز رہنما اور بانی پاکستان قائد اعظم کے قریبی اور بااعتماد ساتھی خان لیاقت علی خان کی برسی کا مہینہ ہے جن کو 16اکتوبر 1951ء کو کمپنی باغ راولپنڈی میں ایک جلسےمیںگولی مار کر شہید کردیا گیا تھا،خان لیاقت علی خان آج ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں لیکن ان کا ایثار، افکار،ہمت و شجاعت اب بھی ہماری رہنمائی کرتے ہیں۔حالیہ چند ہفتوں میں عالمی سطح پر ہونیوالی تبدیلیوں میںمئی کی جنگ میں بھارت کیخلاف پاکستان کی کامیابی، مشرق وسطیٰ تنازع اور پاک سعودیہ دفاعی معاہدے جیسے عوامل اور نایاب معدنیات، کرپٹو کرنسی، توانائی اور تیل کی تلاش جیسے شعبوں میں امریکا سمیت دیگر ملکوں نے جس انداز میں پاکستان کی اہمیت کو تسلیم کیا وہ ماضی میں کبھی نہیں ہوا۔پاکستان سے شکست کے بعد بھارت بوکھلاہٹ کا شکار ہے، کر کٹ کے میدان کو بھی اس نے اپنی گندی سیاست سے بدنام کرنے کی کوشش کی مگر معرکہ حق کی طرح کھیل کے میدان میں بھی کسی ملک نے بھارت کے کردار کو قبول نہیں کیا ۔یہ اس کی ایک اور ناکامی ہے۔ موجودہ حالات میں ہمیں بھارت سے چوکنا رہنا پڑے گا جو بلوچستان اور کے پی میں مسلسل دہشت گردی کو فروغ دے رہا ہے۔اقوام متحدہ جنرل اسمبلی اجلاس سے وزیراعظم کے تاریخی خطاب کو غیر معمولی پیشرفت قرار دیا جارہا ہے ،وزیر اعظم نے بھارتی دہشت گردی ، اسرائیلی جار حیت کو دنیا کے سامنے بے نقاب کیا،اس حقیقت سے کوئی انکارنہیں کرسکتا کہ پاکستان واحد ملک ہے جسکے پاس دہشت گردی سے لڑنے کا تجربہ ہے۔ ہم نے ہرقسم کے حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ، دنیا کی پابندیاں بھی برداشت کیں، گوریلا وار بھی لڑی،پاکستان کی قوم کو معلوم ہے کہ ہماری افواج اور حکمرانوں کو سپرپاورز سے ڈیل کرنا آتا ہے۔ ہم بین الاقوامی محاذوں پر بھی کردار ادا کرتے رہے ہیں، اقوام متحدہ کی مشن فوج کا بھی حصہ رہےہیں۔ فلسطین، اسرائیل تنازع کے حل کے حوالے سے جو اطلاعات ہیں اس میں پاکستان کا کردار سب سے اہم دکھائی دے رہا ہے۔ غزہ کے کنٹرول اور دونوں فریقین کو جنگ سے باز رکھنے کیلئے اسلامی ملکوں کی فوج بھجوانے کی تجویز ہے۔ امریکا کی خواہش پر وہاں بحالی کیلئے عرب ممالک اپنے وسائل استعمال کریں گے۔ محسوس ہورہا ہے کہ فوج بھیجنے کا معاملہ پاکستان کے حصے میں آ سکتا ہے۔ غزہ کے مسئلے کو حل کرنے کیلئے برطانیہ، کینیڈا، آسٹریلیا، فرانس، پرتگال بلجیم، مناکو اور کئی دیگر ملکوں کی جانب سے فلسطین کو خود مختار ریاست تسلیم کرنے کے بعد امریکا اور اس کے اتحادیوں پر دباؤ بڑھا۔

پاکستان اور سعودی عرب اسٹرٹیجک دفاعی معاہدہ دونوں کے تعلقات میں ایک نئے دور کا آغاز ہے۔ جس سے خطے کے استحکام اور مسلم دنیا کے اتحاد پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔معاہدے کے تحت کسی بھی ملک پر ہونے والا حملہ دونوں پر تصور ہو گا۔ بظاہر یہ الفاظ سادہ ہیں لیکن ان کے اثرات انتہائی گہرے اور سعودی عرب کے ساتھ ہمارے تاریخی رشتوں کی تجدید اور تعلقات کو ایک باضابطہ مشترکہ دفاعی فریم ورک میں ڈھالنے کی علامت بھی ہیں۔ اس معاہدے پرمغربی میڈیا تلملا اٹھا ہے اور اس نے جوہری معاہدے کا پروپیگنڈا شروع کردیا ہے جس کا مقصد ایران کے ساتھ ان دونوں کے تعلقات کو کشیدہ کرنا ہے،مغربی تجزیہ کاروں نے سوال اٹھایا کہ کیا پاکستان سعودی عرب کو جوہری چھتری فراہم کر رہا ہے،حقیقت یہ ہے کہ معاہدہ جوہری ہتھیاروں کے اشتراک سے متعلق نہیں بلکہ روایتی تعاون، مشترکہ تربیت، ٹیکنالوجی اور انٹیلی جنس کے تبادلے پر مرکوز ہے۔پاکستان، سعودی عرب دونوں ذمہ دار ریاستیں ہیں جو جوہری عدم پھیلاؤ کے اصولوں کی پابند ہیں۔ اس پس منظر میں پاکستان سعودی عرب دفاعی معاہدہ ایک اضافی سلامتی کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔ یہ معاہدہ پاکستان کی جیو پولیٹکل اہمیت کو بڑھاتا اور اسے عالمی و علاقائی فورمز میں زیادہ مؤثر بناتا ہے۔

پا ک بھارت حالیہ جنگ میں شاندار عسکری کارکردگی نے دنیا کو دکھا دیا کہ پاکستان کی مسلح افواج ہر محاذ پر بے مثال ہے۔ یہی جنگی ساکھ اس دفاعی معاہدے کو مزید وزن دیتی ہے۔پاکستان کیلئے یہ موقع ہے کہ وہ مسلم دنیا میں ایک ذمہ داراور خودمختار شراکت دار کے طور پر اپنے کردار کو مزید مستحکم کرے۔ پاک سعودی معاہدہ اس اعتبار سے بھی اہم ہے کہ قطر پر حالیہ اسرائیلی حملے ،جس پر اسرائیل نے معافی مانگ لی ہے، امریکا کے بارے میں یہ سوال بھی جنم دے رہا ہے کہ جب ایران اور اسرائیل کی جنگ کے دوران ایران نے قطری خودمختاری کی خلاف ورزی کرتے ہوئے قطر میں قائم امریکی فوجی اڈے پر میزائل داغے تھے تو انہیں فضا ہی میں تباہ کر دیا گیا تھا۔ تاہم اس مرتبہ امریکا انے اسرائیلی حملے کیخلاف قطر کو ایسا کوئی دفاع فراہم کیوں نہیں کیا؟اپنے دفاع کیلئے امریکی معاونت پر انحصار میں سعودی عرب کی صورتحال بھی قطر سے زیادہ مختلف نہیں ہے۔ قطر پر اسرائیلی حملے کے بعد سعودی عرب کیلئے یہ ایک فطری عمل ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ دفاعی معاہدہ کرے۔ اس وقت خلیج فارس کی تمام تر ریاستوں کو یہ اندازہ ہو چکا ہے کہ وہ صرف امریکا پر اپنی سیکورٹی کیلئے مکمل انحصار نہیں کر سکتے۔

تازہ ترین