دنیا کی تاریخ ایک شفاف آئینہ ہے جس میں ہر انسان اپنے ماضی کے خدوخال دیکھ سکتا ہے اور یہ تحریر بھی پڑھ سکتا ہے کہ بغاوتیں ہمیشہ وہاں جنم لیتی ہیں جہاں انسانوں کے درمیان طبقاتی فرق حد سے تجاوز کر جائے، جہاں ایک طرف محرومی انتہا کو چھونے لگے تو دوسری طرف مال و دولت کی نمائش ہو،جہاں انصاف کا توازن طاقتور کے پلڑے میں جا گرے، ہر بغاوت انقلاب میں نہیں ڈھلتی،تاریخ کی دہلیز پر رکھی بہت سی ایسی بغاوتیں ہیں جو روشنی کے خواب دکھا کر اندھیروں میں غائب ہو گئیں، جو تعمیر کا وعدہ کر کے تخریب کی آلہ کار بنیں۔ فرانسیسی انقلاب کو ہی لیجیے۔اس کے آزادی، مساوات اور اخوت کے خوشنما نعرے نے یورپ کے دل کو دہلا کر رکھ دیا تھا،کسان اور مزدور صدیوں کے جبر کیخلاف اٹھ کھڑے ہوئے مگر جلد ہی وہ انقلاب خون آشام خانہ جنگیوں میں گم ہو کر رہ گیا۔ صبحِ آزادی کیساتھ قتل و غارت کی شام بھی اْتر آئی۔ وہ انقلاب جو انصاف کی نوید بننا چاہتا تھا،اپنی ہی سڑکوں پر لاشوں کا بوجھ ڈھونے لگا۔ روسی انقلاب نے بھی کچھ دیر مزدوروں کے خواب جگمگائے مگر دائمی تعبیر میں نہ ڈھل سکا۔چند برسوں میں قربانیوں سے کمایا ہوا انقلاب ایک سخت گیر آمریت میں بدل گیا۔عوام کی آواز دب گئی، اختلاف جرم بن گیا اور طاقت ایک ہی فرد کی پوٹلی میں سمٹ کر رہ گئی۔ صدیوں کے فاصلے طے کر کے اگر حالیہ دہائیوں کی طرف آئیں تو عرب دنیا کی بغاوتیں بھی کچھ ایسا ہی منظر پیش کرتی ہیں ۔ تیونس، مصر، شام اور لیبیا کے نوجوانوں نے نئی صبح کے خواب دیکھے۔ چوکوں میں نعرے لگے، سڑکوں پر بہت سے قدموں کی چاپ گونجی لیکن نتیجہ خانہ جنگی نکلا۔ تباہ حال ریاستوں نے عوام کا مزید استحصال کیا۔یہ مثالیں ہمیں یہ سبق دیتی ہیں کہ بغاوت اگر نظریے، قیادت، تنظیم اور تدریجی حکمتِ عملی سے محروم ہو تو وہ اپنے ہی عوام کیلئے بوجھ بن جاتی ہے۔ جذبات کا طوفان بظاہر بڑا خوشنما دکھائی دیتا ہے لیکن اگر اس میں سمت نہ ہو تو وہ سب کچھ بہا کرلے جاتا ہے، حتیٰ کہ وہ خواب بھی جن کیلئے بغاوت کی گئی ہو۔گزشتہ برسوں میں دنیا کے مختلف ممالک میں نوجوان اپنے حکمرانوں کیخلاف اٹھ کھڑے ہوئے، وہ انہیں تخت سے اتارنے میں بھی کامیاب ہوئےمگر سوال یہ ہے کہ ان شورشوں سے حاصل کیا ہوا؟ جہاں معیشت کی بحالی کے امکانات تھے، وہاں بھی بغاوت نے حالات کو مزید ابتری کی طرف دھکیل دیا۔مساوات کے جذباتی نعروں نے ترقی کی گاڑی کو ہی الٹ سمت میں موڑ دیا۔دیکھا جائے تو اصل قصور ان عناصر کا ہے جو نوجوانوں کو صرف حالات کا ایک رخ دکھا کر نظام سے متنفر کرتے ہیں، یہ وہ خطیب ہیں جو خود میدانِ عمل میں اْترنا پسند نہیں کرتے لیکن تاریخ کے باغی کرداروں کی نقالی میں اپنی شناخت بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ نقال ان شعلوں کو بھڑکاتے ہیں جو آخرکار سب سے پہلے غریب کی جھونپڑی کوہی جلا کر راکھ کر دیتے ہیں۔
یہ سمجھنا بھی لازم ہے کہ ہر دولت مند استحصالی نہیں ہوتا۔ کسی کی خوشحال زندگی کے پیچھے برسوں کی محنت اور قربانیاں چھپی ہوتی ہیںمگر جو لوگ خود محنت سے گریز کرتے ہیں وہ دوسروں کی کامیابی کو برداشت نہیں کر پاتے، یہ حسد پہلے دلوں کو جلاتا ہے اور پھر موقع ملنے پر سڑکوں پر پھیل جاتا ہے۔ جلاؤ گھیراؤ، لوٹ مار اور قومی اثاثوں کی تباہی اسی زہر کی آخری شکل ہے۔ دنیا کے ہر ملک میں بے شک ایک چھوٹا سا طبقہ ہی وسائل پر قابض ہے، لیکن اس کے مقابلے میں ایک بڑا طبقہ وہ بھی ہے جو اپنی محنت اور ذہانت کے سہارے خوشحال ہوا ہے ۔المیہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا کے شور نے ان دونوں کو گڈ مڈ کرکے امیر اور غریب کے فرق کو نفرت اور دشمنی کا لبادہ پہنا دیا ہے۔
ماضی میں نظریاتی رہنماؤں نے نوجوانوں کی سوچ کو واضح سمت دی۔ چاہے وہ مارکسزم ہو یا قوم پرستی، نوجوان جانتے تھے کہ وہ کس راستے پر جا رہے ہیں اور انکی منزل کیا ہے، آج یہ نظریاتی بنیادیں معدوم ہو گئی ہیں ، دائیں اور بائیں بازو کی تقسیم دھندلا گئی ہے، روشن خیالی کے دعویدار بھی اکثر تعصبات کے اسیر دکھائی دیتے ہیں۔ ایسے میں نئی نسل کو مثبت سمت میں مصروف کرنا ناگزیر ہے،تعلیمی نصاب میں وہ حقائق شامل کیے جائیں جو معیشت، سیاست اور معاشرت کا اصل چہرہ دکھاتے ہیں، میڈیا پر ان پر بھرپور مکالمہ ہونا چاہیے تاکہ نوجوان یہ جان سکے کہ ترقی اور زوال میں سے اسکا ملک کس سمت رو بہ سفر ہے۔انہیں شعور دیتے یہ بھی بتایا جائے کہ حالات نہ ایک دن میں بگڑتے ہیں نہ سنبھلتے ہیں اور یہ بھی کہ انقلاب کبھی ایک دن کا عمل نہیں ہوتا۔ اصل حکمت یہی ہے کہ نظام کے اندر رہتے ہوئے انصاف اور مساوات کیلئے جدوجہد کی جائے ۔یہ بھی وقت کا تقاضا ہے کہ جمہوری حکومتیں اور بیوروکریسی اپنی شاہانہ روش ترک کرکے سادگی اپنائیں ، عوام ہر قربانی کو قبول کر لیتے ہیں اگر انہیں اپنے حکمرانوں میں ایثار دکھائی دے، مگر جب عوام پر ٹیکسوں اور مہنگائی کا بوجھ لادا جائے اور حکمران اپنی آسائشوں میں مست رہیں تو نفرت جنم لیتی ہے،یہی نفرت بغاوت کی آگ کو ہوا دیتی ہے۔معاشرتی فرق اور ناکام بغاوتوں کی اصل جڑ صرف معاشی ناہمواری نہیں، بلکہ قیادت کی بے حسی اور نوجوانوں کی بے سمتی بھی ہے۔ ہم نے اپنے نظام کو انصاف اور مساوات کی بنیادوں پر استوار کیا تو بغاوت کا الاؤ بجھ سکتا ہے ورنہ تاریخ کے اوراق میں ہمارا حوالہ بھی ان قوموں کی طرح درج ہوگا جنہوں نے اپنی بربادی کے اسباب خود فراہم کیے۔