اسلام آباد ہائیکورٹ نے اسلامی نظریاتی کونسل کی رائے پر انجینئر محمد علی مرزا کے خلاف گستاخی کے مقدمے میں حکمِ امتناع برقرار رکھا ہے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ عدالت اسلامی نظریاتی کونسل کے اختیارات کو معطل نہیں کر رہی، اسلامی نظریاتی کونسل کی رائے پر حکمِ امتناع برقرار رہے گا۔
جسٹس کیانی نے اٹارنی جنرل کو عدالت میں پیش ہونے کی ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ یہ بہت اہم معاملہ ہے اور ریاست کا موقف پیش کیا جائے تاکہ عدالت ریاست کی اس متعلقہ تشریح دیکھ سکے۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی رائے صدر، گورنر اور پارلیمان کو بھیجی جا سکتی ہے، تاہم کونسل کے رولز میں صرف پارلیمان کو رائے بھیجنے کا تذکرہ موجود ہے۔
جسٹس کیانی نے استفسار کیا کہ پارلیمان کو معاملہ بھیجنا تھا، آپ نے ایک ایس ایچ او کو کیسے بھیج دیا؟
اسلامی نظریاتی کونسل کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ کونسل کی ہر رائے پارلیمان کو ہی بھیجی جاتی ہے اور کوئی بھی چیز وہاں پیش کی جاتی ہے۔
درخواست گزار کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ کونسل کے پاس کوئی کام نہیں اور وہ اپنا جواز بنانے کے لیے یہ اقدامات کرتی ہے۔
نمائندہ اسلامی نظریاتی کونسل نے عدالت کو بتایا کہ کونسل کے چیئرمین کا عہدہ خالی ہے۔
جسٹس کیانی نے استفسار کیا کہ کیا عدالت چیئرمین کی تعیناتی کے لیے آرڈر پاس کرے؟ چیئرمین نہ ہونے کی صورت میں خود اپنا چیئرمین مقرر کرانے کی کوشش کریں۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے کیس کی سماعت موسمِ سرما کی چھٹیوں کے بعد تک ملتوی کر دی۔