وفاقی وزیر تعلیم ڈاکٹر خالد مقبول نے کہا ہے کہ مجھے لگتا ہے کہ میں حکومت میں رہتے ہوئے اپوزیشن میں بیٹھا ہوا ہوں۔
کراچی میں ناظم آباد کی نجی یونیورسٹی میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پہلے بھی کہا کہ تبدیلی لانی ہے تو ایوان میں لائی جائے، ایوانوں میں کسانوں کی نمائندگی جاگیردار کر رہا ہے، خاندان کر رہے ہیں، 18ویں ترمیم کے بعد بنیادی تعلیم ہم نے صوبوں کے حوالے کردی ہے۔
ڈاکٹر خالد مقبول کا کہنا ہے کہ ہم ایسے دور میں ہیں جب ہماری قسمت کا فیصلہ مشینیں کریں گی، ملک کی 30 سال سے کم عمر کی آبادی 15 کروڑ ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے اب یہ دکھا دیا ہے کہ آبادی کو اثاثہ بھی بنایا جاسکتا ہے، امریکا میں نرس کی اتنی ہی عزت ہے جتنی ڈاکٹر کی، میں جہاں سے پڑھا ہوں، وہاں 90 فیصد سے زائد لڑکیاں اب پڑھ رہی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ سندھ میڈیکل جناح یونورسٹی میں جو لڑکیاں پڑھ رہی ہیں وہ زیادہ تر گھر بیٹھ جائیں گی، ریاست ان کو ڈگری دے گی جبکہ ان کے گھر والے انہیں بیلن تھما دیں گے، آج چین میں ترقی کی رفتار ایسی ہے کہ ان کو سوا ارب لوگ کم پڑ رہے ہیں۔
وفاقی وزیر نے مزید کہا کہ جاپان، روس اور چند ممالک ایسے ہیں جہاں آبادی کی کمی کا خوف ہے، ہم ابھی سوچ رہے ہیں لیکن اب سوچنے کا وقت ختم ہو گیا ہے، جو بچے پوزیشن لے کر آ رہے ہیں وہ ایوانوں میں کیوں نہ ہوں۔
ڈاکٹر خالد مقبول کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہم یہ سنتے سنتے بڑے ہوئے کہ پاکستان میں معاشی بحران ہے، پاکستان میں معاشی بحران نہیں بلکہ نیتوں کابحران ہے، نیتوں کا بحران ہوتے ہوئے معاشی بحران دور نہیں ہوسکتا ہے، ہم ان بدنصیب ملکوں میں سے ہیں جو ڈی انڈسٹریلائز ہوگئے، افرادی قوت کے سوائے ایکسپورٹ کرنے والی اب فیکٹریاں نہیں بچیں گی۔