مذہب سے سائنس تک، خالق و مخلوق كا رشتہ مالک وعبد كا رشتہ ہوا كرتا ہے، خالق کی تخلیق کا ایک مقصد ہوتا ہے، اس مقصد کے حصول کیلئے مخلوق کو مخصوص صلاحیت ودیعت کی جاتی ہے، اور قاعدہ قانون عطا کیا جاتا ہے ۔ انسان نے آج تک جو کچھ خلق و ایجاد کیا ہے وہ بھی اسی اصول کے تحت کیا ہے۔ پہیے سے ایٹم بم تک اور ٹیسلا سے چنگ چی تک، ہر تخلیق کا ایک مقصد تھا، صلاحیت تھی، اور ایک قاعدہ تھا۔انسانوں نے ایک ایجاد کی ہے جسے آرٹی فشل انٹیلی جنس یا مصنوعی ذہانت کہا جاتا ہے، اسے ایجاد کرنے والے خود کہہ رہے ہیں کہ یہ مخلوق اپنے اندر بغاوت کے شدید جراثیم رکھتی ہے، جلد یا بہ دیر یہ اپنے خدا پر قاتلانہ حملہ کر سکتی ہے۔ بابائے آرٹی فشل انٹیلی جنس جفری ہنٹن فرماتے ہیں کہ انتہائی احتیاط کی ضرورت ہے، مسابقتی کہ بہ جائے مشترکہ پالیسی اپنانا ہو گی، گہری نظر رکھنا ہو گی، اگر اس ایجاد میں چھپی ہوئی ہلاکت کا بروقت سدباب نہ کیا گیا تو’’تباہی ہے تباہی قبلہ گاہی۔‘‘اس معاملے میں پاکستان کو دنیا بھر پہ سبقت حاصل ہے، ہمارے ہاں بابا ہنٹن کے اندیشوں کے عین مطابق مصنوعی ذہانت ترقی کے تمام مدارج طے کر چکی ہے، اپنے خالق کے مقاصد سے انحراف کر چکی ہے، اپنے اہداف خود مرتب کر چکی ہے جو خالق کے ارادوں سے یک سر متصادم ہیں ۔ لہٰذا دنیا توبابا ہنٹن کی نصیحت پر جانے کب عمل کرے، پاکستان نے ان کے فرمودات کو حرزِ جاں بنا کر، بلکہ ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے مصنوعی ذہانت کی فیکٹریاں بند کرنے کی مہم آغاز کر دی ہے، مگر مخلوق ہتھیار ڈالنے پر تیار نہیں، نتیجہ یہ ہے کہ سائنس دان اور روبوٹ ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہو چکے ہیں، کشتوں کے پشتے لگ رہے ہیں، گھمسان کا رن پڑا ہوا ہے۔قصہ کچھ یوں ہے کہ CHATGPT تو ابھی كی پیداوارہے، ہمارے مایہ ناز سائنسدانوں نے دہائیوں پہلے اس صنعت میں ایجادات کا انبار لگا دیا تھا، CHATTTP اورCHATTLP اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ ہمارے مقامی بابائے مصنوعی ذہانت یقیناً زیادہ ذہین لوگ نہیں تھے، اسی لیے گل حمید سے شجاع پاشا تک اور ظہیرالسلام سے فیض حمید تک کسی کو مصنوعی ذہانت میں چھپے ہوئے خطرات سے آگاہی نہیں تھی۔ حال آں کہ کئی چیٹ بوٹ پہلے بھی سائنس دانوں سے دست و گریبان ہو چکے تھے۔ چیٹ ایم کیو ایم اور چیٹ لشکرِ طیبہ کا قصہ چھوڑتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں۔ ہمارے سائنس دانوں نے CHATTTP اپنے عالی شان مقاصد کی تکمیل کے لیے سی آئی اے کے ڈالرز سے بنائی تھی، سال ہا سال یہ روبوٹ اپنے خالق کا حکم مانتے رہے، خالق انہیں اپنا معاون اور فرماں بردار سمجھتے رہے، پھر ایک وقت آیا جب یہ اتنے طاقت ور ہو گئے کہ انہوں نے اپنی حکومت قائم کر لی اور اپنے خالق پر تلوار سونت لی۔ اب کچھ سالوں سے صورت حال یہ ہے کہ انہوں نے پورے خطے کی ترقی کو یرغمال بنا رکھا ہے، نہ سی پیک چلنے دیتے ہیں، نہ کہیں گیس پائپ لائن بچھنے دیتے ہیں، نہ سڑک بننے دیتے ہیں، نہ گھر جاتے ہیں۔ مئی میں ہندوستان نے ہمارے ہاتھوں جو دھول چاٹی اس کے بعد تو جیسے تحریکِ طالبان میں ایک انتقام کی آگ بھڑک اُٹھی، پاکستان میں دہشت گردی مزید بڑھی، فوجیوں اور شہریوں کے خلاف بہیمانہ حملے اور بڑھے، گویا واضح اعلانِ جنگ کر دیا گیا۔’’قیدِ حیات و بندِ غم‘‘ کی طرح، ٹی ٹی پی اور افغان حکومت’’اصل میں دونوں ایک ہیں‘‘، لہٰذا پاکستان اور افغانستان اب علانیہ حالتِ جنگ میں ہیں۔ طالبان گوریلا جنگ کے ماہر ہیں اور پاکستان کو بھی اسی میں پھنسانا چاہتے ہیں، پاکستان کی جنگی صلاحیت اور تیاری بھارت سے مخصوص ہے، ہم نور ولی محسود کو کابل میں نشانہ بنا سکتے ہیں، کسی بھی افغان علاقے کو تورا بورا بنا سکتے ہیں مگر گوریلا جنگ میں طالبان کو یادگار سبق سکھانا آسان نہیں ہے۔ بلا شبہ یہ ایک مشکل صورتِ حال ہے۔ اب کیا کیا جائے؟ گل حمید صاحب سے درخواست ہے’’کِتوں قبراں وچوں بول‘‘۔اب CHATTLP کا ذکرہو جائے۔ سائنس دانوں نے نواز شریف کے بریلوی ووٹ توڑنے کیلئے یہ روبوٹ ایجاد کیا تھا، بس اتنا سا، معصوم سا مقصد تھا۔ اس مقصد کے حصول کیلئے کتنے’’سر تن سے جدا‘‘ ہوتے ہیں یہ سائنس دانوں کامسئلہ نہیں تھا۔ اسے کہتے ہیں Myopia ، کوتاہ نظری۔ ہزاروں فلسطینی بچے، جوان، بوڑھے شہید ہوئے، مصنوعی مجاہد ایئر کنڈیشنڈ حجروں میں دما دم ورد کرتے رہے، اور اب جب کہ غزہ میں جنگ بند ہو رہی ہے، معصوموں کی نسل کُشی رکنے کا راستہ کھل رہا ہے، توجتھے یک دم اسلام آباد جانے کی ہوس میں مبتلا ہو گئے، جب افغانستان ہم پر جنگ تھوپ رہا ہے تواحبابِ موقع شناس کو فلسطینیوں کا بہتا خون نظر آنے لگا۔ سینس آف ٹائےمنگ یقیناً اسی کو کہتے ہونگے۔ ٹی ایل پی کے شوقِ فساد کی کیا وجوہ ہیں؟ ’’مجھے معلوم کیا وہ رازداں تیرا ہے یا میرا۔‘‘ہمارے مایہ ناز سائنسدانوں کی ایک تخلیق CHATPTI بھی تھی، المعروف نو مئی والے۔ اس رو بوٹ کی تخلیق بھی کم نظری کا شاخسانہ ثابت ہو چکی ہے، موجودہ ہنگامے کے عین درمیان کے پی کے میں پی ٹی آئی نے نیا وزیرِ اعلیٰ نام زد کیا ہے، جنہوں نے منظر پر آتے ہی اعلانِ جنگ کر دیا ہے، انہوں نے واضح طور پر ٹی ٹی پی اور افغان طالبان کی حمایت کا اعلان تو نہیں کیا، مگر اس کے علاوہ اسے کیا نام دیا جا سکتا ہے۔ یہ سارا خون رنگ منظر مصنوعی ذہانتوں کا کرشمہ ہے، یعنی’’یار کو ہم نے جا بہ جا دیکھا۔‘‘ محاذ کئی ہیں، چیلنج بہت بڑے ہیں۔ اگر ہم ان مسائل کا دیرپا حل چاہتے ہیں تو ایک ہی راستہ ہے۔ سائنس دانوں کو مصنوعی ذہانت کے کارخانے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بند کرنا ہوں گے، صد بار اگر توبہ شکستی، باز آ۔