چلیں، اچھا ہوا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان جنگ بندی ہو گئی۔ دو مسلمان اور ہمسایہ ممالک کے درمیان فوجی جھڑپیں کوئی اچھا منظر نہیں ہوتا۔ بدقسمتی یہ ہے کہ افغانستان کی موجودہ حکومت نے پاکستان کو مجبور کر دیا کہ کچھ سخت اقدامات کئےجائیں۔طالبان حکومت اور افغانوں نے ہمیں بہت مایوس کیا۔ پاکستان نے ان کیلئے بہت کچھ کیا مگر افغانستان نے وہ کیا جو بدترین دشمن بھی نہیں کر سکتا ۔ ہم نے چالیس لاکھ سے زائد افغانوں کو پناہ دی، طالبان سمیت کئی بڑے افغان رہنماء یہاں رہے اور کاروبار کیا۔ مگر یہ سب کچھ بُھلا کر افغانستان نے پاکستان میں بھارت کے اشاروں پر دہشتگردی کو ہوا دی۔ افغانستان کی وجہ سے یہاں دہشتگردی آئی، کلاشنکوف کلچر پھیلا، ہیروئن اور دیگر نشے عام ہوئے۔ اسکے باوجود ہم نے بہت برداشت کیا اور ہر فورم پر افغانستان کا ساتھ دینے کی کوشش کی۔ دنیا نے افغانستان کو اکیلا چھوڑا لیکن ہم اُن کی آواز بنے۔ افغان طالبان کی مدد کے حوالے سےڈبل گیم کا الزام بھی ہم نے برداشت کیا اور اس کے نقصانات سہے۔ تاہم جب سے کابل میں طالبان حکومت آئی، انہوں نے ہمارے ساتھ وہ کچھ کیا جو کرزئی یا غنی کی حکومتیں بھی نہ کر سکیں۔ ہمیں امید تھی کہ طالبان حکومت کے آنے کے بعد سرحدی دفاع کے معاملات میں ہم بے فکری محسوس کریں گے، مگر افغان طالبان نے پاکستان میں دہشتگردی کرنیوالی تنظیموں کو افغان زمین پاکستان کے خلاف استعمال کرنیکی کھلی چھٹی دے دی جس سے پاکستان میں دہشتگردی کے واقعات میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ بارہا طالبان حکومت سے کہا گیا کہ ان دہشتگرد تنظیموں کو کنٹرول کرے، انہیں پاکستان کے خلاف دہشتگردی سے روکے یا دہشتگردوں کو پاکستان کے حوالے کرے، مگر طالبان نےہمیشہ سنی ان سنی کر دی۔ اُنہیں بار ہا یاد دلایا گیا کہ دوحہ معاہدے کے تحت افغانستان پابند ہے کہ وہ اپنی سرزمین کو پاکستان یا کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دے گا، مگر وہ اپنے اس وعدہ کو نبھانے میں نہ نہ صرف ناکام رہا بلکہ اس پر عمل کرنے میں کوئی دلچسپی ہی نہ لی۔ پاکستان کابل کے سامنے دہشتگردی کا مسئلہ اٹھاتا رہا لیکن طالبان نے الٹا بھارت سے تعلقات مضبوط کیے اور بی ایل اے اور ٹی ٹی پی جیسی تنظیموں کو پاکستان کے خلاف دہشتگردی کیلئے آزاد چھوڑ دیا۔ اس پس منظر میں سمجھنا مشکل تھا کہ اب ہم کیا کریں، مگر حال ہی میں افغانستان کی طرف سے پاکستان کے سرحدی علاقوں میں کچھ حملوں نے پاکستان کو مجبور کر دیا کہ وہاں موجود دہشتگرد تنظیموں اور انکے حامیوں کو خود سبق سکھایا جائے۔ پاکستان نے اپنی فوج کی محدود صلاحیت استعمال کرتے ہوئے افغانستان کے اندر بشمول کابل اور قندھار سمیت مختلف علاقوں میں اُن دہشتگرد تنظیموں کے کمانڈروں اور اہم ٹھکانوں پر حملے کیے۔ اس کے ساتھ ساتھ افغان و طالبان حملہ آوروں کو بھی خوب سبق سکھایا۔ کچھ حلقے پروپیگنڈاکرتے رہے کہ اگر ایک کے بعد ایک سپر پاور کو افغانستان میں شکست ہوئی تو پاکستان کیا کر لے گا؟ ان لوگوں کو یاد دلایا گیا کہ ان ممالک کی افغانستان میں ناکامی میں پاکستان کا کیا کردار رہا۔ ویسے بھی پاکستان کا مقصد افغانستان کو فتح کرنا یا وہاں قبضہ کرنا کبھی نہیں رہا؛ مگر گوریلا جنگ لڑنے والے افغانوں نے پاکستان کو انڈر ایسٹیمیٹ کیا، اور یہی وجہ ہے کہ پاک فوج کے محدود حملوں کو افغانستان برداشت نہ کر سکا۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ وہ افغانستان جو دہشتگردی کے معاملے پر پاکستان کی بات سننے کو تیار نہ تھا، اسے اندازہ ہوا کہ پاکستان دہشتگردی روکنے کیلئے مذاکراتی رویّہ نہیں بلکہ فوجی طاقت بھی استعمال کر سکتا ہے۔ اسی دوران دیگر مسلم دوست ممالک نے بیچ بچاؤ کی کوششیں کیں اور پھر گزشتہ روز قطر میں طے پایا کہ افغانستان میں موجود دہشتگرد تنظیموں کو پاکستان پر حملے کی اجازت نہیں دی جائیگی اور دونوں ممالک ایک دوسرے کی سلامتی کا خیال رکھیں گے۔ اچھا ہوا کہ جنگ بندی ہو گئی۔ اب امید کی جانی چاہئے کہ افغانستان اور طالبان بی ایل اے، ٹی ٹی پی اور ایسی ہی دیگر دہشتگرد تنظیموں کے خلاف سخت اقدامات کریں گے۔ افغانستان کو سمجھنا ہوگا کہ پاکستان یہ مزیدبرداشت نہیں کریگااور اگر دوبارہ یہاں دہشتگردی ہوئی تو پاکستان انہیں افغانستان میں ہی نشانہ بنائے گا۔ جہاں تک افغان مہاجرین کا تعلق ہے، انہیں اب اپنے ملک واپس چلے ہی جانا چاہئے۔