• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں ایک بار پھر ملک گیر مہم پولیو کے خاتمے کیخلاف شروع ہونے جا رہی ہے ۔ہر صوبے نے اس مہم کو کامیاب بنانے کیلئے بہترین انتظامات کیے ہیں ۔ حکومت سندھ نے بھی بہت سنجیدگی سے ہوم ورک کرکے اپنے مشن کا آغاز کیاہے ۔ سندھ میں اب تک لاکھوں بچوں کو پولیو کے ڈراپس پلائے گئے ہیں ۔ سندھ کے وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ نے مئی 2025 ءمیں حکومتی اور اپوزیشن بینچوں کے ارکان اسمبلی کو ذمہ داری کا احساس دلاتے ہوئے ان کو اپنے اپنے حلقوں میں اس مہم کی نگرانی کا حکم دیا تھا تاکہ یہ موذی وائرس پاکستان سے بالکل ختم ہوسکے ۔ اس بار پھر وزیر اعلیٰ سندھ کی نگرانی میں اس مہم پہ حلقے کے ارباب اختیار کو سخت وارننگ جاری کی گئی کہ وہ اس مہم کو زبانی کلامی یا فوٹو سیشن تک محدود نہ رکھیں اور روزانہ کی بنیاد پہ رپورٹ انکے آفس میں جمع کرائیں تاکہ اگر کوئی پولیو وائرس کیس رپورٹ ہو تو اس علاقے کے وزیر سے پوچھ گچھ ہو کیونکہ حکومت ان مہمات میں پیسہ اور وسائل خرچ کرتی ہے پولیو ورکرز بھی ایمانداری سے اپنے کام کرتے ہیں اسکے باوجود ہر سال پولیو کا کیس نکل آتا ہے تو اس غفلت کے مرتکب کی نشاندہی ہونی چاہئے ۔ آج کل پھر 13اکتوبر سے 19اکتوبر تک قومی انسداد پولیو مہم شروع ہوچکی ہے ۔ وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ ہر بار کی طرح اس بار بھی اپنی نگرانی میں اس مہم کا جائزہ لے رہے ہیں، ان کی سخت وارننگ سے امید بندھی ہے کہ اس بار حکومت سندھ اپنے ٹارگٹ کو باآسانی پورا کرلے گی ۔پچھلی بار ایم کیو ایم کے وفاقی وزیر صحت مصطفی کمال کی سربراہی میں پولیو کی مہم ماہ مئی 2025 سے ملک بھر میں شروع کردی گئی تھی ۔ مصطفی کمال کی قابلیت میں کوئی شک نہیں ہے جب وہ ناظم کراچی تھے تو انہوں نے کراچی کو بےمثال فلائی اوورز اور سڑکوں کے تحفے دیئے تھے۔ اب کافی عرصہ بعد مصطفی کمال کی خدمات وفاقی حکومت نے حاصل کیں ہیں تو امیدہے پولیو کی مہم قومی سطح پر بھی انشاء اللہ اپنا ٹارگٹ پورا کرے گی ۔پولیو کا وائرس ہمیشہ سے یورپ کا بھی مسئلہ رہاہے ۔ 1955ءمیں ایک امریکی دوا ساز کمپنی نے اس کی پہلی ویکسین ایجاد کی تھی اور یہ عالمی سطح پہ متعارف ہوئی تھی ۔ 2002ءمیں یورپ کو سرکاری طور پر پولیو سے پاک ہونے کا اعزاز ملا تھا۔پاکستان میں 1990 ءمیں باقاعدہ طور پر پولیو مہم شروع کی گئی تھی اور 1994ءمیں اس مہم کی وزارت صحت نے سنجیدگی سے نگرانی شروع کی تھی اور یہ موذی مرض تقریباً ختم ہونے لگا تھا اور پولیو کا آخری کیس جنوری 2011 ءمیں منظر عام پر آیا تھا مگر پھر پاکستانی طالبان نے اس مہم کو سبوتاژ کرنا شروع کر دیا تھا ۔ سوات کے ملا فضل اللہ عرف ملا ریڈیو پولیو مہم کے خلاف مہم بھی چلاتےتھے اور ان ڈراپس کو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف مغرب کی سازش بھی سمجھتے تھے ۔ 2014ءپاکستان میں پولیو وائرس کے پھیلنے کا بدترین سال تھا اور اسی سال دنیا بھر میں سب سے زیادہ کیس پاکستان میں ہی رجسٹرڈ ہوئے تھے اور ملک بھر میں پولیو کے سو کیس سامنے آئے جن میں 79 کیس خیبرپختونخواکے تھے اور بنوں ، ڈیرہ اسماعیل خان ، مہمند سے ایک ایک اور اکیس عدد کیس سندھ کے ضلع دادو سے رجسٹرڈ ہوئے تھے جبکہ نائجیریا جیسے پسماندہ ملک میں اس سال کوئی کیس بھی سامنے نہیں آیا تھا ۔ پاکستان میں کئی برسوں سے عسکریت پسند افراد پولیو کے قطرے پلانے والی ٹیموں کے ممبران کو قتل کرتے رہے ہیں ۔ اصل میں ان دہشتگردوں اور جرائم پیشہ افراد کو یہ خوف رہتا ہےکہ ان پولیو ورکرز کی گھر گھر مہم کے نتیجے میں کہیں انکی موجودگی کا انکشاف نہ ہو جائے ۔ یہ سفاک قاتل ان پولیو ورکرز کو بلاتامل ہلاک کردیتے ہیں جو اپنے اپنے خاندان کیلئے روزی روٹی کمانے کی غرض سے جان پہ کھیل کر پولیو کے قطرے پلانے آتے ہیں ۔ یہ بلاشبہ دہشت گردی کی بدترین شکل ہے ان واقعات سے اس مہم کے تسلسل میں تعطل آتا ہے ۔ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسیف کے ورلڈ ہیلتھ پروگرام کے تحت پورے پاکستان میں ہر سال انسداد پولیو مہم چلائی جاتی ہے جو 15جنوری سے شروع کی جاتی ہے ۔

دنیا بھر میں پولیو کے وائرس کو پھیلنے سے روکنے کیلئےکیے گئے اقدامات کے طور پر پاکستان ، افغانستان ، نائیجیریا ، کیمرون اور شام کے شہریوں کیلئے بیرونی ملکوں میں سفر کرنے سے قبل پولیو ویکسی نیشن کو لازمی قرار دیا جاتاہے ۔ پاکستان افغانستان میں پولیو کا وائرس دوبارہ سر اٹھا رہاہے حالانکہ ان دونوں ممالک سے یہ مرض تقریباً ختم ہو گیا تھا ۔ پاکستان میں 2024 ءمیں پولیو کے 74 کیس ملک بھر میں رجسٹرڈ ہوئے جس کی وجہ سے حکومت پاکستان نے اس دفعہ اس معاملے کو بہت سنجیدگی سے لیاہے اس بار سندھ اور کراچی کے شمالی اضلاع میں بھی پولیو کیس زیادہ تعداد میں دیکھنے میں آئے تھے اس کی وجہ وہاں کے غیر مقامی افراد کا پولیو ڈراپس اپنے بچوں کو پلانے سے انکار تھا ۔ ترکی یورپ کا واحد ملک تھا جہاں پولیو کا آخری کیس 1998ءمیں سامنے آیا تھا ۔پولیو ویکسی نیشن کی حمایت میں سب سے اچھا قابل ذکر کام مولانا طاہر اشرفی کا ہے انہوں نے تمام مسالک کے علماء کے ذریعے پولیو ڈراپس کی مہم کو جائز قرار دیا اور اسکی مخالفت کو ناجائز کہا ۔ مولانا طاہر اشرفی نے ہمیشہ اپنے لیکچروں میں بھی اس بات پہ زور دیا کہ علماء نے ہمیشہ ان لوگوں کی مذمت کی ہے جو اسلام کا نام استعمال کرکے پولیو مہم کے خلاف غلط فہمیاں پھیلاتے ہیں ۔ مولانا طاہر اشرفی کی پرخلوص کوشش سے پسماندہ علاقوںکے لوگوں میں کافی شعور بیدار ہورہاہے اور دوسری طرف شدت پسندوں کے علاقوں میں پولیس فورس اپنی نگرانی میں اس مہم کو کامیاب بنانے کیلئے انتظامات کرتی ہے ۔ انشاء اللہ امید ہے وہ دن دور نہیں جب پاکستان بھی پولیو فری ملک کہلائے گا ۔

تازہ ترین