’الیومناٹی‘ نامی پراسرار طاقت یا خفیہ تنظیم کے حوالے سے صدیوں سے لوگوں کے ذہنوں میں ایک سوال گونج رہا ہے کہ کیا واقعی دنیا پر ایک خفیہ گروہ حکومت کر رہا ہے؟ کیا مشہور شخصیات، عالمی سیاست اور بڑے انقلابات کے پیچھے ایک ہی طاقت کارفرما ہے؟
الیومناٹی کی تاریخ اور ان سوالوں کے حوالے سے آئیے ہم آپ کو بتاتے ہیں۔
سنہ 1776 میں باوریا یعنی موجودہ جرمنی میں ایک قانون کے پروفیسر ایڈم ویشپٹ نے چند ساتھیوں کے ساتھ مل کر ایک خفیہ سوسائٹی کی بنیاد رکھی۔ ایڈم ویشپٹ کی خواہش تھی کہ وہ یورپی ممالک میں نظام حکومت کو تبدیل کریں اور ریاستی اُمور سے مذہب کو ختم کریں اور لوگوں کو روشنی کی نئی راہ دکھائیں۔
وہ چاہتے تھے کہ انسان عقل و منطق کی روشنی میں جینا سیکھے، اسی لیے اس گروہ کا نام رکھا گیا ’الیومناٹی‘ یعنی ’روشنی پھیلانے والے‘ یا ’روشن خیال‘۔
اس گروہ کی پہلی خفیہ میٹنگ یکم مئی 1776 کو ایک جنگل میں ہوئی، ابتدائی دنوں میں الیومناٹی کے ارکان کی تعداد پانچ تھی لیکن جب اُنہوں نے فری میسن تنظیم کے ارکان کو اپنے ساتھ شامل کیا تو اُن کا اثر و رسوخ بڑھنے لگا۔
الیومناٹی میں شامل ہونا آسان نہ تھا۔ صرف دولت مند، بااثر اور معتبر افراد ہی اس تنظیم میں داخلہ پا سکتے تھے۔ ان کے ہاں ایک باقاعدہ درجہ بندی کا نظام تھا۔ ہر نئے رکن کو اپنی کمزوریاں، دشمنوں کے نام اور ذاتی کتب کی فہرست جمع کروانی ہوتی تھی۔ پھر وہ عہد کرتا تھا کہ اپنی ذات کی قربانی دے کر معاشرے کی بھلائی کےلیے کام کرے گا۔
ان کے اجلاس خفیہ ہوتے اور ارکان فرضی نام استعمال کرتے تاکہ کوئی ان کی اصل شناخت نہ جان سکے۔ ان کا نشان تھا ’برڈ آف منروا‘ Bird of Minerva ، جو علم و دانش کی علامت سمجھا جاتا ہے۔
ایک مثلث میں بنی آنکھ Eye of Providence جسے آپ نے امریکی ڈالر پر بھی دیکھا ہوگا۔ کئی لوگ اسے الیومناٹی کا نشان سمجھتے ہیں، مگر حقیقت میں یہ ایک مسیحی علامت ہے جو خدا کی انسان پر نگاہ کی نشانی ہے۔
تاریخی ریکارڈ کے مطابق باوریا کے حکمران کارل تھیوڈور نے 1785 میں الیومناٹی پر پابندی لگا دی تھی۔ کئی ارکان گرفتار ہوئے، دستاویزات برآمد ہوئیں اور گروہ تحلیل ہوگیا تھا، تاہم وقت گزرنے کے ساتھ جب Eye of Providence کا یہ نشان فری میسن اور پھر الیومناٹی سے جوڑا گیا، تو اس کا مطلب بالکل بدل گیا، اب یہ طاقت، نگرانی اور خفیہ کنٹرول کی علامت بن چکا ہے۔
یہی وہ سوال ہے جس نے اس تنظیم کو افسانوں اور سازشوں میں زندہ رکھا ہوا ہے، کچھ لوگ یقین رکھتے ہیں کہ الیومناٹی آج بھی موجود ہے اور دنیا کے بڑے فیصلوں کے پیچھے انہی کا ہاتھ ہے، چاہے وہ عالمی جنگیں ہوں، انقلابات ہوں یا مشہور شخصیات کے پُراسرار قتل۔
الیومناٹی کے نام پر سازشی مفروضے ختم ہونے کا نام نہیں لیتے۔ فرانسیسی انقلاب سے لے کر امریکی صدور کے فیصلوں تک ہر بڑے تاریخی واقعے کے پیچھے الیومناٹی کو جوڑا گیا۔
آج کے زمانے میں ’نیو ورلڈ آرڈر‘ یعنی نئے عالمی نظام کا نظریہ انہی مفروضوں کا تسلسل ہے۔ کہا جاتا ہے کہ الیومناٹی ہی خفیہ اور پُراسرار عالمی تنظیم ہے جس کا مقصد دنیا پر قبضہ کرنا ہے۔
دو صدیاں گزر جانے کے بعد بھی اس سوال کا کوئی یقینی جواب نہیں کہ الیومناٹی ایک خفیہ گروہ ہے یا فلسفہ؟ یا صرف ایک پُراسرار داستان؟ مگر ایک بات طے ہے کہ الیومناٹی ختم نہیں ہوئی، بلکہ ایک خیال کی شکل میں آج بھی زندہ ہے اور یہی خیال اسے ہمیشہ پُراسرار بنائے رکھتا ہے۔