اور ممکن ہے کہ یہ کوئی بھیانک شکل اختیار کرلے ، جو تمہیں عقل سے محروم کرکے پاگل پن میں دھکیل دے ( شیکسپیئر)عموماً خیال کیا جاتا ہے کہ معقولیت اور پاگل پن کے درمیان بال برابر حد فاصل ہوتی ہے ، لیکن یہ باریک حد لاکھوں وجوہات سے عبارت ہے کہ کیوں ہمیں اپنی سوچ اور حساب کتاب میں معقولیت کا دامن تھامے رکھنا چاہیے۔ لمحہ بھر کی دیوانگی تباہی کے لاتعداد گڑھوں میں پھینک سکتی ہے جہاں ایک سے بڑھ کر ایک خطرہ گھات لگائے ہوتا ہے ۔
یہ بھی یقین کیا جاتا ہے کہ سفارت کاری اور سیاست امکانات کی دنیا کا کھیل ہیں ۔ دوسری طرف نفرت بھری راہیں جو ممکن ہے کسی گہری کھائی کی طرف لے جائیں ، یا نتیجہ اس سے بھی تباہ کن ہو سکتا ہے ۔ راستے میں حائل ہر رکاوٹ مجھے یقین دلاتی ہے کہ ایسے امکانات ضرور موجود ہیں جو ہمیں حفاظت سے منزل کی طرف لے جا سکتے ہیں ، لیکن ہمارا خبط رکاوٹوںاور مشکلات سے اٹے ہوئے راستے پر لے جاتا ہے ۔
جیسے جیسے اندرون ملک معاشی بحالی اور بیرون ملک سفارتی کامیابیوں کے ڈھول پیٹے جارہے ہیں ، انسان کوحقیقت اور حکایت کی دنیاؤں کو الگ کرنے کی کوشش کرنا پڑتی ہے۔ معاشی بحالی کا دعویٰ ایک طرف تو قرضوں کے مسلسل بڑھتے ہوئے ڈھیر میں لپٹا ہوا ہےجو ہم نے دنیا بھر سے لے رکھے ہیں ،اور دوسری طرف پاکستان کے تجارتی اعداد و شمار میں 30 بلین ڈالر کا فرق ہمارا منہ چڑا رہا ہے۔پاکستان سنگل ونڈو نے جولائی 2020 سے جون 2025 کے دوران 321 بلین ڈالر کی درآمدات ریکارڈ کیں، اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے رسمی بینکنگ چینلز کے ذریعے صرف 291 بلین ڈالر کا اندراج کیا۔ اس سے پاکستان کے تجارتی رپورٹنگ سسٹم کی درستی کے بارے میں سوالات اٹھتے ہیں کیونکہ یہ ممکنہ طور پر کم رپورٹ شدہ درآمدات کو چھپا تاہے جسے ٹیکس سے بچنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اب تک پاکستان نے آئی ایم ایف کے تجویز کردہ تکنیکی مشن کو معاملے کی تحقیقات کی اجازت دینے کی مخالفت کی ہے۔
بین الاقوامی میدان میں کامیابیوں کا اندازہ وزیر اعظم کے اس رویےسے لگایا جا سکتا ہے جب وہ اپنے مبینہ محسن کے گلے سے جھول جاتے ہیں۔ صدر ٹرمپ کی منظوری حاصل کرنے کے لیے ایک وزیراعظم کوایسا نامناسب رویہ اختیار کرتے دیکھ کر قوم کو شرمندگی ہوتی ہے ۔ اس موقع پر موجود بعض دیگر رہنماؤں کا تاثر ایسا تھا جیسے انھیں اپنی آنکھوں پر یقین نہ آرہا ہو۔ پاکستان کے خارجہ تعلقات کی تاریخ کی یہ نئی پستی ہے۔
اگر کوئی عقل سے دستبردار نہ ہو چکا ہو توصاف نظر آتا ہے کہ پاکستان کو نہ صرف بے مثال چیلنجز کا سامنا ہے بلکہ ان سے نمٹنے کی صلاحیت اور سکت بھی کم ہو تی جا رہی ہے۔ ہر نیا اندرونی یا بیرونی محاذ جو ہم کھولتے ہیںہمارے محدود قومی وسائل پر مزید بوجھ ڈالتا ہے۔ لیکن بڑھتی ہوئی کمزوری کا سب سے مہلک جزو قابل اعتماد قیادت کا فقدان ہے جو پاکستان کی اس ہنگامہ خیز دور میں رہنمائی کر سکے ۔
پھر بھی ہماری ترقی کا ایک اور پہلو ظاہر کرتا ہے کہ عارضی معاشی ریلیف حاصل کرنےکیلئے ہر قومی اثاثے کو برائے فروخت رکھ دیا گیا ہے۔ اسکے ساتھ ساتھ اقتدار کی باگ ڈور تھامے رکھنے کی جنونی خواہش سے قومی عزت و وقار کا بھی سودا کیا جارہا ہے۔ اس تباہی کی ذمہ دار کوئی بیرونی طاقت نہیں جس نے ہم پر حملہ کردیا ہو۔ یہ ہمارا اپنا کیا دھرا ہے۔ چرائے گئے انتخابات نے حکومت کو سنبھالنے کے لیے شہنشاہوں کا ایک گروپ جمع کر دیا ہے۔ ان کے پاس نہ تو لوگوں کا اعتماد ہے اور نہ ہی ایسا کرنے کی صلاحیت۔ وہ پرانی چالیں آزما رہے ہیں۔ انہوں نے ماضی میں جوڑ توڑ کی مہارت حاصل کر رکھی ہے جسے وہ آزما رہے ہیں: انتخابات چوری کرو، اپوزیشن کو سلاخوں کے پیچھے ڈالو، لوٹ مار کرو اور کچھ وقفے کے بعد ملک سے روانہ ہو جاؤ تاکہ دوبارہ اپنا کھیل کھیلنے آ سکو۔
جابرانہ ہتھکنڈوں کے استعمال کی وجہ سے نئی فالٹ لائنیں ابھرنے لگی ہیں جن کی عکاسی بڑھتی ہوئی بدامنی سے ہوتی ہے۔ ہم ایک ایسا ملک ہیں جو معاشی غلامی اور سیاسی غلامی کی دوہری لعنت میں گرفتار ہے۔ ایسی سمجھدار آوازیں بھی ہیں جو عملی نقطہ نظر کو اپنانے کی ضرورت پر زور دیتی ہیں۔ حال ہی میں واشنگٹن میں ایک میڈیا بریفنگ میں، وفاقی وزیر خزانہ نے اعتراف کیا کہ مستقل اقتصادی ترقی اور سرمایہ کاروں کا اعتماد ملکی امن اور سیاسی ہم آہنگی پر منحصر ہے۔ لیکن اس وقت دونوں عنقا ہیں۔
دہشت گردی اور دہشت گرد تنظیموں کو ٹارگٹ کرکے ختم کرنا ہوگا۔ لیکن وہ لوگ جنہیں عوام نے منتخب کیا ہے اور جن کا مینڈیٹ ریاست نے چرایا ہے اور جن کے لیڈر اور اس کے سیاسی ساتھیوں اور کارکنوں کو ان کے خلاف جھوٹے اور فراڈ کے مقدمات درج کر کے سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا ہے وہ ریاست کے دشمن نہیں ہیں۔ وہ ہم آہنگی چاہتے ہیں جو آگے بڑھنے کی راہ ہموار کرتی ہے۔ وہ انصاف کا مطالبہ کرتے ہیں جو ان کا لازمی حق ہے۔ انہیں ٹھکرانے کی بجائے خلوص اور صاف نیت کے ساتھ جواب دینا چاہیے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا ہےتو ریاست جانب دار دکھائی دے گی، جس سے فالٹ لائنز مزید نمایاں ہوجائیں گی، کیوں کہ جو لوگ اعتماد سے محروم ہوں ، ان میں بڑھتے ہوئے چیلنجز سے عہدہ برا ہونے کی صلاحیت نہیںہوتی۔ وہ قوم کی نیا کومنجدھار سے نکال کر پرسکون پانیوں میں نہیں لے جا سکتے ۔
یہ کوئی مسئلہ فیثا غورث نہیں ہے۔ حکمران فائدہ مفاد پرست اشرافیہ کی تفرقہ انگیز پالیسیوں کے نتیجے میں قرضوں کی عدم ادائیگی، سرمایہ کاروں کے اعتماد کی کمی، معاشی بدحالی اور سیاسی عدم استحکام میں اضافہ ہوا ہے۔ تمام شواہد حالات کی مزید خرابی کی طرف اشارہ کرتے ہیں کیونکہ مینڈیٹ چور مستقبل کیلئے کوئی لائحہ عمل طے کرنے کے بجائے اپوزیشن کو شکست دینے میں زیادہ مصروف ہیں۔ اس عمل میں معاشرے کے وسیع طبقات کو الگ تھلگ کر دیا گیا ہے۔
ریاست اپنے حق میںہے کہ وہ شورشوں اور پرتشدد بدامنی کو روکنے اور لوگوں کو مذاکرات کی میز پر لانے کیلئے پیمائش شدہ اختیارات استعمال کرے۔ لیکن یہ ان لوگوں پر ظالمانہ اور لامحدود طاقت کا استعمال نہیں کر سکتی جو ووٹرز کے مینڈیٹ سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور جو یکسانیت اور ہم آہنگی پیدا کرنے کیلئے بات چیت کے خواہاں ہیں۔ ریاست متحمل نہیں ہو سکتی کہ پرامن سیاسی جدوجہد کی تاریخ رکھنے والے اپنے ہی لوگوں کے ساتھ بات کرنے سے انکار کر دے ۔
ہر معاشرہ معقول آوازیں رکھتا ہے جو تقسیم اور تفرقے کو دبا لیتی ہیں ۔ ہمارے پاس بھی ایسی آوازوں کی کمی نہیں لیکن اگر انھیںدباتے گئے تو پھر وہ کچھ ہو گا جس سے احمد فرازؔنےہمیں خبردار کیا تھا :جب قتل ہوا سر سازوں کا / جب کال پڑا آوازوں کا / جب شہر کھنڈ ر بن جائے گا / پھر کس پر سنگ اٹھاؤ گے ۔
یہ وقت مڑ کر پیچھے دیکھنے اور سوچنے کا ہے : ہم اپنے ہی لوگوں کے ساتھ کیوں جنگ کررہے ہیں ؟ ہم ایسی پالیسیوں پر کیوں عمل پیرا ہیں جو فالٹ لائنز بڑھاتی اور وسیع کرتی ہیں ؟ یہ وقت ہر کسی کو دور کرنے کا نہیں اکٹھے کرنے کا ہے ۔ معقولیت کو جگہ دینے کی ضرورت ہے ۔
(کالم نگار پی ٹی آئی کے رہنما ہیں)