• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان اور طالبان کے درمیان دوحہ میں ہونیوالے 13گھنٹے طویل مذاکرات کامیابی کے ساتھ مکمل ہوگئےہیں،دونوں ممالک نے فوری جنگ بندی اور دہشتگردی کے خاتمے پر اتفاق کیاہے۔مذاکرات کی میزبانی قطر اور ثالثی ترکیہ نے کی۔قطر کی وزارت خارجہ کے مطابق فریقین نے نہ صرف جنگ بندی پر اتفاق کیا بلکہ دوطرفہ امن و استحکام کیلئے ایک مستقل میکنزم پر بھی رضا مندی ظاہر کی۔طے شدہ نکات پر عمل درآمد یقینی بنانے کیلئے مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھا جائے گا۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان دوحہ میں ہونے والے مذاکرات نے خطے کے امن کیلئے ایک نئی راہ کھول دی ہے۔قطر کی سرپرستی اور ترکی کی ثالثی میں طے پانے والا یہ معاہدہ پاکستان کی مضبوط پوزیشن اور سفارتی حکمت عملی کی کامیابی کا مظہر ہے۔حساس نوعیت کے باعث مذاکرات کی تفصیلات کو مکمل طور پر عوامی نہیں کیا گیا،جو افغان فریق کو فیس سیونگ دینے کی ایک حکمت عملی تھی۔حقیقت یہ ہے کہ افغان طالبان کی جانب سے کوئی خاص مطالبہ پیش نہیں کیاگیا،جبکہ پاکستان کا دیرینہ موقف مکمل طور پر تسلیم کر لیا گیا ہے۔اس معاہدے کے تحت افغانستان سے پاکستان کی سرزمین پر دہشتگردی کا سلسلہ فوری طورپر بند کیا جائے گا،جو خطے میں استحکام کیلئے ایک اہم پیش رفت ہے۔ یہ معاہدہ پاکستان کی پوزیشن آف اسٹرینتھ کا نتیجہ ہے۔افواج پاکستان نے زمینی سطح پر فیصلہ کن کارروائیاں کر کے افغان طالبان کو واضح پیغام دیا کہ پاکستان اپنی سلامتی کیلئے کسی بھی حد تک جاسکتا ہے۔ان کارروائیوں نے مذاکراتی میز پر پاکستان کے مطالبات کو تقویت دی،خاص طور پر یہ کہ افغانستان دہشتگردی کی ہر قسم کی حمایت اور سہولت کاری ختم کرے۔ٹی ٹی پی جیسے گروہ دونوں ممالک کے درمیان امن اور ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔پاکستان نے اس کے خلاف بھر پور کارروائی کر کے دنیا کو بتادیا ہے کہ وہ اپنے امن پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا۔یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ ماضی میں افغان طالبان نے اسی طرح کے وعدے کئے،مگر وہ چند ہفتوں سے زیادہ نہ چل سکے۔اس بار معاہدہ قطر اور ترکی کی ثالثی میں ہوا ہے،جواسے منفرد بناتا ہے۔اس میں ایک نگرانی کا میکنزم بھی شامل ہے۔جسے فوری طور پر قائم کرنا ضروری ہے تاکہ عمل درآمد یقینی بنایا جاسکے۔اگر یہ معاہدہ ناکام ہوا تو خطے میں امن کی امیدیں دم توڑ دیں گی۔طالبان کو یہ سمجھنا ہوگا کہ بھارت کو اپنی سرزمین پر دہشتگر د کیمپ چلانے کی اجازت دینایا اس کے اشاروں پر چلنا ان کی اپنی تباہی کا باعث بنے گا۔بھارت نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں دہشتگردی کی سرپرستی کرتا ہے،وہ افغانستان کا سچا دوست نہیں ہے۔ طالبان اگر امن،ترقی استحکام چاہتے ہیں تو انہیں بھارت جیسے سانپ صفت اتحادی کے بجائے پاکستان سے تعلقات بہتر بنانا ہوں گے،طالبان یہ بات جتنی جلدی سمجھ جائیں ان کے اور خطے کیلئے اہم ہوگا کہ بھارت کی مداخلت خطے کی تباہی کا باعث بن رہی ہے۔امن کا واحد راستہ یہ ہے کہ طالبان حکومت دہشتگردکیمپوں کے خلاف کارروائی کرے اور بھارت کے بہکاوے سے بچے۔پاکستان نے اپنی دفاعی اور سفارتی طاقت سے ثابت کردیا کہ وہ خطے میں استحکام کا ضامن ہے۔اب افغان طالبان کی باری ہے کہ وہ اس موقع کو ضائع نہ کریں۔یہ معاہدہ نہ صرف سرحدی کشیدگی ختم کرے گا بلکہ تجارت اور عوامی رابطوں کو فروغ دے گا،جو دونوں ممالک کی معیشتوں کیلئے ناگزیر ہے۔ اسی طرح، خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ سہیل آفریدی نے کہا ہے کہ افغانستان سمیت جو بھی حملہ کرے گا اس کو بھرپور جواب ملے گا۔ مجھے کسی کے خلاف نہیں لایا گیا۔ آئین اور قانون کی بالادستی کیلئے آیا ہوں، ہمارا ہر قدم قانون اور آئین کے مطابق ہوگا۔ پر امن احتجاج کریں گے۔ یہ صوبہ ہم سب کا ہے۔ ہم عدالتوں میں جنگ لڑرہے ہیں۔ انصاف نہ ملا تو احتجاج ہی کریں گے۔ کوئی بھی جارحیت کرے تو ہم فوج کے ساتھ کھڑے ہوں گے، یہاں سے 8 لاکھ افغان مہاجرین واپس گئے۔ 12لاکھ اب بھی ہیں، باعزت طور پر بھجوائیں گے۔یہ نہایت خوش آئند بات ہے کہ خیبر پختونخوا کے نئے وزیراعلیٰ نے قومی سلامتی اور سا لمیت کے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے ایک دانش مندانہ بیان کے ذریعے یہ واضح کیا ہے کہ پاکستان کے دفاع کے معاملے میں پوری قوم متحد ہے۔ افغانستان میں قائم طالبان کی عبوری حکومت کو اس سے یہ بات سمجھ میں آجانی چاہیے کہ وہ جن دہشتگرد گروہوں اور تنظیموں کو تحفظ فراہم کر رہے ہیں پاکستان میں ان کی کارروائیاں ان کیلئے ایسے مسائل پیدا کرنے کا باعث بنیں گی جنھیں حل کرنے کیلئے انھیں طویل مدت درکار ہوگی۔ پاکستان افغانستان کو برادر ملک سمجھتا ہے اور وہاں کے عوام کیلئے خیر خواہی کا جذبہ رکھتا ہے ۔

دوسری جانب اسرائیل نے اتوار کو جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے شمالی غزہ پر فضائی حملہ کیا ہے جس سے 40 فلسطینی شہید اور متعدد زخمی ہو گئے۔ اسرائیل نے جنگ بندی کے باوجود رفح سمیت جنوبی غزہ کے کچھ حصوں پر حملہ کیا۔ اسرائیل نے 120 راکٹ برسائے۔ غزہ کے سرکاری میڈیا کے مطابق، اسرائیل اب تک جنگ بندی کی 47 خلاف ورزیاں کرچکا ہے اور ان واقعات میں درجنوں افراد شہید اور 143 زخمی ہوچکے ہیں۔حماس نے امریکی محکمہ خارجہ کے اس بیان کو مسترد کر دیا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ قابل اعتماد اطلاعات کے مطابق حماس جنگ بندی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے غزہ میں اسرائیلی شہریوں پر حملہ کر سکتی ہے۔ حماس نے کہا ہے کہ کسی بھی بگڑتی صورتحال کی ذمہ داری اسرائیل پر عائد ہو گی۔ حماس نے ثالثوں سے اسرائیلی جارحیت رکوانے کی اپیل کی۔جنگ بندی معاہدے کے ثالثوں کو بھی اس پر ہر حال میں عمل درآمد کروانا ہوگا۔

تازہ ترین