اس سے بڑا جبر کوئی نہیں جو قانون اور انصاف کے نام پر کیا جاتا ہے :(Montesquieu)
کان کے پردے پھاڑ دینے والے بحالی کے نعرے ایک طرف، لیکن ایسا لگتا ہے کہ پاکستان تیزی سے جان لیوا مسائل میں الجھتا جا رہا ہے جن سے دور رہنا ہی بہتر تھا۔ بہت سے دیگر مسائل کے علاوہ دو پر عملی اور بامقصد توجہ درکار ہے لیکن اس پر بے کار کی نعرے بازی کی ضرورت نہیں ۔مختلف ذرائع سے ملنے والی رپورٹس کے مطابق پاکستان کے فوجی دستے غزہ کے لیے تشکیل پانے والی بین الاقوامی اسٹیبلائزیشن فورس میں شامل ہوں گے۔ یہ صدر ٹرمپ کے ابراہم معاہدے کے تحت علاقائی حالات معمول پر لانے کی کوششوں کا حصہ ہوگا۔ دیگر امور کے علاوہ 20نکاتی چارٹر میں فوری جنگ بندی، ہلاک ہونے والوں کی باقیات سمیت قیدیوں کا تبادلہ، غزہ کو محفوظ اور غیر فوجی علاقہ بنانے کیلئے کثیر القومی فورس کی تعیناتی اور اسکے بعد خلیجی ریاستوں کی فنڈنگ سے اسکی تعمیر نو ہوگی اور اسے دہشت گردی سے پاک اقتصادی زون قرار دے دیا جائیگا۔ جب غزہ کو آزاد مانیٹروں کی نگرانی میں مکمل طور پر غیر فوجی بنا نے کے بعد یہ یقینی بنایا جائے گا کہ اس سے اسرائیل کو کوئی خطرہ نہیں ، تو اس کی سیکورٹی فورسز مرحلہ وار واپس جائیں گی، اور اس کی سیکورٹی کی نگرانی کی ذمہ داری بین الاقوامی اسٹیبلائزیشن فورس کے حوالے کر دی جائے گی ۔
امن معاہدہ اسرائیل کی نسل کشی کو جائز قرار دیتا ہے۔ وہ ممالک جو اس عمل کو نافذ کرنے میں شامل ہوں گے، کسی نہ کسی حوالے سےاس میں سہولت کاری کررہے ہوں گے۔مذکورہ دستاویز میں فلسطینی ریاست کا کوئی ذکر نہیں ، اور نہ ہی کوئی ایسا عمل بیان کیا گیا ہے جس کے تحت اسرائیل کی طرف سے دو سال سے جاری نسل کشی کا حساب لیا جائے گا، جس میں 75 ہزار سے زائد افراد جاں بحق، ہزاروں معذور، پوری آبادی بے گھر ہو گئی، اور ہسپتال، اسکول اور دفاتر زمین بوس ہو گئے۔ یہ اسرائیل کیلئے پہلے سے سوچے سمجھے قاتلانہ منصوبے میں معاونت کے مترادف ہے، جس میںامریکی مدد اور معاونت شامل رہی ۔ جنگ بندی کے باوجود جارحیت پر آمادہ اسرائیل جو بین الاقوامی یادداشت سے لفظ فلسطین کو مٹانے پر تلا ہوا ہے، اس کی کھلم کھلا خلاف ورزی کر رہا ہے۔ اسرائیلی قتل و غارت گری کا سلسلہ روزانہ بلا روک ٹوک جاری ہے، لیکن اسے ایسا کرنے سے روکنے والا کوئی نہیں: امریکہ خاموش ہے جیسا کہ مسلم دنیا کی قیادتیں ، جنہوں نے معاہدے کو ممکن بنانے کے لیے دستخط کیے ہیں ۔ اسرائیل کے توسیع پسندانہ اور نسل کشی کے عزائم کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان میں شدت آتی گئی ہے۔ لبنان، فلسطین، مصر، شام، عراق، ایران، خطے کے تقریباً تمام ممالک اسرائیلی توسیع پسندانہ جارحیت کا شکار رہے ہیں جس نے اب وحشیانہ شکل اختیار کر لی ہے جس کا ثبوت غزہ کی پٹی ہے۔ چونکہ اس تباہی کو امریکہ اور مغربی دنیا کے ایک حصے کی حمایت حاصل ہے، اس لیے اس پر کوئی قدغن نہیں لگائی گئی، بلکہ اس عمل نے اس کے ہاتھ مزید کھول دیے ہیں۔ یہ وہی توسیع پسندانہ اور نسل کشی کی پالیسی ہے جسے اب ابراہم معاہدے کے ذریعے جائز قرار دیا گیا ہے۔
مسلم دنیا کی چشم پوشی پر افسوس کرتے ہوئے لیفٹیننٹ جنرل (ر) اسد درانی کا اپنے ایک حالیہ مضمون ’’ناممکن امکانات کا خاتمہ‘‘ میں کہنا ہے:’فلسطینیوں کی قسمت پر مہر ثبت کرنے کے لیے ٹرمپ کا ساتھ دینا اطاعت کا مظہر ہے۔ اتنا وفادار تو کسی مافیا کے رکن بھی اپنے باس کے نہیں ہوتے۔‘‘ امریکی حکم کے سامنے مسلم دنیا کو سر تسلیم خم کرتے دیکھ کر افسوس ہوتا ہے۔ ہم حکمت اور تدبر سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہوئے ایک زوال کی دلدل میں دھنس چکے ہیں۔ یہ تابعداری دکھاتے ہوئے ہم ریاست کے بانی اصولوں سے متصادم ہیں ۔امن فورس میں شامل ہوکر فوجی دستے بھیجنا غیر معمولی پیش رفت ہے ۔ ماضی میں اردن میں فلسطینیوں سے لڑنے کی تاریخ رکھتے ہوئے ہمیں کسی ایسے خطرے میں پاؤں رکھنے سے پہلے غیرمعمولی طور پر محتاط رہنے کی ضرورت ہے جس کے ہولناک نتائج ہمارے بدترین اندازوں سے بھی تجاوز کر جائیں۔
ایسا اقدام اس وقت اور بھی خطرناک ہو جاتا ہے جب اس معاملے میں قومی اتفاق رائے نہ ہو۔ قوم فلسطینی کاز کے ساتھ ہے۔ امریکہ کے مسلط کردہ معاہدے کے ساتھ ساتھ ان اقدامات کے خلاف بھی متحد ہے جو پاکستان اٹھانے کاسوچ رہا ہے، خاص طور پر مجوزہ امن فورس میں شمولیت کا اثبات میں فیصلہ جو کہ امریکہ کی کمان میں کام کرے گی اور جس کا مقصد حماس کو غیر مسلح کرنا ہوگا۔ قوم کو مزید تقسیم کرنے کی بجائے پارلیمنٹ اور سیاسی قیادت کو اعتماد میں لینا مناسب ہو گا۔ ایسے لیڈروں کی رائے حاصل کی جانی چاہئے جو اس ملک کے لوگوں کی حمایت رکھتے ہیں، اور جو اپنے خیالات اور جذبات کو موثر اور نتیجہ خیز انداز میں بیان کرنے میں کردار ادا کر سکتے ہیں۔ دستیاب فورمز کو استعمال کرنے سے ہٹ کر فیصلہ لینے سے پہلے سے داغ دار قومی منظر نامے میں مزید فالٹ لائنیں پیدا ہو سکتی ہیں۔
ہمارے ہمسائے میں،افغانستان کے ساتھ ایک بحران پیدا ہو رہا ہے۔ اطلاعات کے مطابق ترکی اور قطر کی ثالثی میں دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات تعطل کا شکار ہو گئے ہیں کیونکہ افغانستان اپنی سرزمین سے کام کرنے والے دہشت گردی کے مراکز، جن میں زیادہ تر ٹی ٹی پی کے ہیں، کو ختم کرنے میں اپنے کردار کے بارے میں تحریری طور پر کچھ کرنے کو تیار نہیں ہے ۔ دوسری طرف پاکستان کا بجا طور پر اصرار ہے کہ سرحد پار سے ہونے والی دہشت گردانہ سرگرمیوں کو روکنے کے لیے اس طرح کا اقدام پیشگی شرط ہے۔ جہاں دیگر مسائل کو غیر جانبدارانہ انداز میں حل کرنے کی ضرورت ہے، دونوں ممالک کے حکام کی جانب سے جاری کیے جانے والے اشتعال انگیز بیانات کشیدہ صورتحال کو مزید بگاڑ رہے ہیں۔ آئیے حقائق کا سامنا کریں۔ یہ خطہ پچھلی نصف صدی کے زیادہ تر حصے میں جنگوں کی لپیٹ میں رہا ہے جب کہ افغانستان اور پاکستان ان جنگوں کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ اس کی وجہ یک طرفہ اور ناقص فیصلہ سازی ہے۔ یہ مسئلہ بداعتمادی اور تعلقات میں تلخی لانے سے ختم نہیں ہوگا۔
جنگ اس بحران کا حل نہیں ۔ امن اس وقت آئے گا جب دونوں فریق باہمی عداوت پر قابو پا لیں اور مل بیٹھ کر اپنے تنازعات کو حل کریں۔ خونی تباہ کاریوں کا سامنا کرنے کے بعدافغانستان اور پاکستان کو خطے کے ایک اور مہلک تنازعےکا شکار ہونے سے بچانے کےلیے آہنی عزم درکار ہے ۔ پاکستان کی سیاسی مجبوریاں اس کی خارجہ پالیسی پر اثر انداز نہیں ہونی چاہئیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ بیرونی دنیا کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کے لیے داخلی استحکام پیدا کیا جائے۔ ایسی پالیسی ہی وقت کی تباہ کاریوں کا مقابلہ کر سکے گی۔
(کالم نگار پی ٹی آئی کے رہنما ہیں)