شاعری اظہار کا وہ لطیف مگر طاقتور وسیلہ ہے، جسکی علامتی زبان اور استعاروں کی پناہ میں رہ کر انسان جبر کے سنگین موسموں میں بھی دل کی بات کر سکتا ہے ۔ سچ بول سکتا ہے، چیخ سکتا ہے اور احتجاج کا حق ادا کر سکتا ہے ۔بغیر سر اٹھائے سر بلند رہنے کا ہنر صرف شاعری ہی سکھاتی اور سمجھاتی ہے۔ایسے شاعروں کے تذکروں سے اردو شاعری کی تاریخ جگمگاتی ہے جنہوں نے آمریت کی کالی رُت میں لفظوں کے چراغ جلائے، اور ظُلم و جبر کے خلاف جدوجہد کرنے والوں کے رہنما بنے۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے نہ صرف اپنے ہم وطنوں کے احساس کو زبان دی، بلکہ اپنے اشعار کے ذریعے غاصب قوتوں کے خلاف فکری مزاحمت کو جِلا بخشی ۔اُن کی شاعری صرف جمالیاتی تجربہ نہیں، بلکہ ایک تاریخی جدوجہد کی دستاویز ہے۔ انسان کی آزادی، توقیر اور اس کی فکری خودمختاری کو مرکزِ فکر بنانے والا عاطف توقیر بھی اسی کارواں کا حصہ ہے۔وہ صرف ایک خوبصورت شاعر نہیں بلکہ ایک صاحبِ جرات مفکر بھی ہے جو معاشی استحصال، فکری جبر اور ٹھیکیداری نظام کے خلاف دلیل سے چراغ روشن کرنے کا ہنر رکھتا ہے۔
وہ حساس دل، جو لفظوں میں صرف جذبات نہیں، فکری بلندی اور تہذیبی بصیرت بُنتا ہے۔ وہ اُن موضوعات کو نظم کا پیرہن دیتا ہے، جن پر بات کرنا بھی جرم سمجھا جاتا ہے۔اُس کی شاعری محض احساس کی نمائندگی نہیں بلکہ ذہنوں کو جھنجھوڑ دینے والی بیداری کی دستک ہے۔عاطف توقیر کا شعری مجموعہ’رد‘سماج کے بنائے ہوئے ایسے انسان دشمن تصورات کو رد کرتا ہے جو فرد کو محکوم اور سوچ کو محبوس رکھنے میں آلہ کار بنائے جاتے ہیں۔وہ ایک ایسے عالم گیر معاشرے کا خواب دیکھتا ہے جہاں نہ صرف انسان کا وقار قائم ہو بلکہ اُس کے نظریات کو بھی عزت دی جائے، اُس کی شاعری کا مرکزی محور رجعت پسندی کی آڑ میں کی جانے والی فکری اور سماجی غنڈہ گردی کے خلاف بے باک مزاحمت ہے۔وہ ظالمانہ منظر کے ارد گرد کھڑے خاموش تماشائیوں کو حرفوں کا پتھر مار کر جھنجھوڑتا ہے جو بہت زیادہ ہیں مگر چند لوگوں کو ظلم کرتے دیکھ کر چپ سادھ لیتے ہیں۔
عاطف کی نظموں میں جو ایک عجب اضطراب ہے۔وہ صرف ردعمل نہیں بلکہ ایک گہری بیداری کی شروعات ہے۔وہ فتویٰ فروشی کے خلاف صرف قلم نہیں اٹھاتا بلکہ ضمیر کی عدالت میں سوالات بھی رکھتا ہے۔اس کی آواز ان سچائیوں کو پکارتی ہے جنہیں سننے سے معاشرہ کتراتا ہے اور اُن سچوں کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے جنہیں تنہا کر دیا گیا ہو۔خاموشی کو جرم کہہ کر سب انسان دوست مثبت سوچ والے لوگوں کو اپنا کردار ادا کرنے کی ترغیب دیتے ھوئے کہتا ھے ، بولو اس سے پہلے کہ تمہاری باری آجائےاور یہی اس کی شاعری کا اصل پیغام ہے۔
عاطف توقیر کی رومانوی شاعری محبت کے حلاوت بھرے احساس کے ساتھ ساتھ اُسی فکری گہرائی اور جمالیاتی نزاکت کی حامل ہے جو اُن کی مزاحمتی نظموں کا خاصہ ہے۔ محبت ان کے ہاں محض جذبہ نہیں بلکہ پوری کائنات کو بانہوں کے ہالے میں سمانے والا روحانی تجربہ ہے، ایک ایسا لطیف احساس جو خوشبو کی صورت لفظوں میں گھلتا ہے ۔خوشبو کا استعارہ عاطف کی شاعری میں صرف جسمانی کشش کا بیان نہیں بلکہ محبت کی پاکیزگی، بے غرضی اور لطافت کا مظہر ہے۔وہ رومان کو محض وصل کی تمنا یا ہجر کی اداسی تک محدود نہیں کرتے بلکہ اسے ایک بلند تر روحانی وابستگی کی صورت میں پیش کرتے ہیں۔جہاں محبوب صرف ایک شخص نہیں بلکہ ایک احساس، ایک روشنی اور ایک ایسی خوشبو ہے جو وقت، فاصلوں اور حالات کی قید سے آزاد ہے۔یوں کہا جا سکتا ہے کہ عاطف توقیر کی رومانوی شاعری محبت کو ایک مقدس تجربہ بنا دیتی ہے، جو دل کو بھی چھوتا ہے اور روح کو بھی مہکاتا ہے ۔اُس کی ہر نظم ایک ایسی فکری کائنات لیے ہوئے ہے کہ علیحدہ مضمون کی متقاضی ہے۔آج میں اُس کی کچھ خوبصورت غزلیں آپ کو سنانا چاہتی ہوں کہ عاطف توقیر کا شعر وہ آواز ہے جسے سننا بھی لازم ہے۔ترے وجود سے جس دن بھی ہو کے آتا ہوں
میں اپنے آپ کو چُھو چُھو کے مسکراتا ہوں
صدائیں خالی نگاہوں سے لوٹ آتی تھیں
سو گھر میں چاروں طرف آئینے لگاتا ہوں
تری نگاہ میں ڈوری ہے تلخ یادوں کی
سِرے کو ہاتھ لگاؤں تو ٹوٹ جاتا ہوں
نہ سوچ کیسے بنائی گئی تھیں دیواریں
یہ دیکھ کتنی سہولت سے دَر بناتا ہوں
غمِ فراق ترے حوصلے سلامت ہیں
دلِ فراغ تجھے کام پر لگاتا ہوں
……
اوڑھ لے پھر سے بدن رات کے بازو نکلے
خواب در خواب کسی خوف کا چاقو نکلے
آئینے پر کسی ناخن کی خراشوں کا وہم
عکس نوچوں تو وہاں بھی ترا جادو نکلے
تیری آواز کی کرنوں سے تصور روشن
پھول نکلے کہ ترے جسم کی خوشبو نکلے
شعبدہ گر تری آغوش تلک جا پہنچا
تیرے پہلو سے کئی اور بھی پہلو نکلے
جشنِ زنداں کی روایت کا بھرم قائم ہے
جسم نے رقص کیا آنکھ سے آنسو نکلے