• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یقین جانیے مسئلہ ’’ای چالان ‘‘ کا نہیں ہے ورنہ کون نہیں چاہے گا کہ سگنل توڑنے والوں، ہیلمٹ نہ پہننے والوں، سیٹ بیلٹ نہ لگانے والوں یا چلتی گاڑی یا موٹر سائیکل پر موبائل فون سننے والوں پر جرمانہ نہ ہو، مسلسل خلاف ورزی پر تو لائسنس بھی منسوخ کردینا چاہئے مگر ایک دم جرمانہ پانچ سو سے پانچ ہزار کر دینگے وہ بھی اس کیلئے جو پہلے ہی پانی نہ آنے پر ہزاروں روپیہ صرف ٹینکر ڈلوانے میں خرچ کرتا ہو، بار بار گاڑی یا موٹر سائیکل کی نمبر پلیٹ تبدیلی کا بھی جرمانہ ادا کرتا ہو۔ کراچی کا تو حال یہ ہے کہ سگنل پر رکو تو اسٹریٹ کرمنل پکڑ لیتا ہے سرخ بتی پر چل پڑو تو کیمرا پکڑ لیتا ہے، جان جانے کا خطرہ بھی برابر کا ہے اور کچھ نہ ہو تو کبھی وہ ڈمپر کا شکار تو کبھی کھلے مین ہول کا۔

کراچی کا غصہ بے وجہ نہیں اور وہ اپنی ناراضی کا اظہار مختلف انداز میں کرتا رہتا ہے۔ اس نے اپنے اس غصہ کا اظہار ووٹ کے ذریعے بھی کیا اور احتجاج کے ذریعے بھی اور اب شاید ایک لا تعلقی کا رجحان بڑھتا جارہا ہے۔ معذرت کیساتھ نوجوانوں نے قلم اُٹھایا تو آپ نے ’’میرٹ‘‘ کا ہی قتل کردیا، غصہ میں بندوق اُٹھائی تو ماورائے عدالت مارا گیا ۔ اُس نے پی پی پی کو ووٹ بھی دیا اور پھر اُس کیخلاف بھی ووٹ دیا، جماعت اسلامی کو بھی ووٹ دیا اور پھر اس کیخلاف بھی، پھر کراچی کے وارثوں کے دعویداروں کو بھی ووٹ دیا مگر وہاں سے بھی مایوسی ملی پھر یوں بھی ہوا کہ پہلی بار اُس نے ایسی جماعت کو ووٹ دیا جس نے وفاق میں بھی حکومت بنائی یعنی پاکستان تحریک انصاف، مگر وہاں سے بھی مایوسی اُسکے نصیب میں آئی۔

کراچی ناراض ہے تو اسلئے بھی کہ سات دہائیوں میں کوئی تو ایک ایسا ’’پروجیکٹ‘‘ بتائیں جس نے اس شہر کے بنیادی مسائل حل کیے ہوں۔شہر کا دکھ تو یہ ہے کہ اسکے ’’اصل ماسٹر پلان‘‘ کو قیام پاکستان کے چند سال بعد ہی ’’منوں مٹی‘‘ تلے دفن کردیا گیا پھر ہر حکومت اپنا ایک ماسٹر پلان لائی شہر کی تباہی کا۔ کراچی ماس ٹرانزٹ کا نام سنتے سنتے ہم جوانی سے ساٹھ سال کراس کرگئے۔ جوانی میں تو پھر اس شہر میں بڑی بسیں بھی چلتی تھیں ، ٹرام بھی اور سرکلر ریلوے بھی ، نلکوں میں پانی بھی آتا تھا اور سڑکیں بھی کشادہ تھیں ۔ بچے کھیلوں کے میدان میں بھی آزادانہ انداز میں جاسکتے تھے اور پارک میں بھی۔ ہمارے حکمرانوں اور اشرافیہ نے سب کچھ تباہ کرکے رکھ دیا ۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ ملک کا معاشی حب ہر طرح کے مافیا کا گڑھ بن گیا اور 80کی دہائی کے بعد ’’جرم ،سیاست، ریاست اور مافیا‘‘ کا ایسا گٹھ جوڑ نظر آتا ہے جس نے شہر کے ہر ادارے کو اقتدار اور پیسے کی ہوس میں برباد کرکے رکھ دیا۔

کمال تو یہ ہے کہ یا تو پروجیکٹ بنتے نہیں ہیں یامکمل برسوں میں ہوتے ہیں اور جب تختی لگ جاتی ہے افتتاح ہوجاتا ہے تو یہ سال بھر بھی نہیں چل پاتے یقین نہ آئے تو شہر کے فلائی اوور ، انڈر پاس کا موازنہ لاہور یا اسلام آباد سے کرلیں اور خود ہی فیصلہ کرلیں۔ صرف سیف سٹی پروجیکٹ کی لاگت 2010ءمیں کیا تھی جب اسلام آباد کا غالباً 126ملین ڈالرز اور لاہور کا 150ملین ڈالرز کی لاگت سے بنایا گیا، اس وقت کراچی کے پروجیکٹ پرجہاں تک مجھے یاد ہے مالیت 1.8ملین ڈالرز آئی تھی اور آج ہم 2025میں کھڑے ہیں شاید آج اگر میں غلط ہوں تو معذرت 500ملین ڈالرز تک بات پہنچ چکی ہے۔ K-IVپانی کے منصوبے کا حال اس سے مختلف نہیں۔ دلچسپ امر بقول ہمارے دوست کراچی کے سابق ایڈمنسٹریٹر فہیم زمان کے یہ بن بھی جائے تو ’’شہر‘‘ کو پانی نہیں ملے گا۔

کراچی کیساتھ ایک ظلم یہ بھی ہوا کہ ہم نے غیر ضروری طور پر اس شہر کو پھیلانا شروع کردیا ۔ جس کیلئے کراچی بلڈنگ اتھارٹی کو سندھ بلڈنگ اتھارٹی بنادیا گیا جبکہ سندھ کے دیگر شہروں کی بلڈنگ اتھارٹی کا نام شہر سے ہی جڑا ہے۔ یہ سب مبینہ طور پر اُسی ’’مافیا الائنس‘‘ کا شاخسانہ ہے۔

شہر اور شہریوں کا غصہ اسلئے بھی نظر آتا ہے کہ لوگ برسوں سے کلفٹن ،ہاکس بے یا سی ویو جاتے تھے جاتے تو اب بھی ہیں مگر اب تو سمندر کو بھی دور کیا جارہا ہے اور پانی سے بدبو آتی ہے ۔ ایسے میں شہر میں صرف ’’کھانا‘‘ ہی واحد تفریح رہ گیا ہے اور اب تو کھانا بھی اتنا مہنگا کہ آدمی ’’ای ۔چالان‘‘ دے یا کھانے کا بل۔

سیاسی طور پر اس کی ذمہ دار صوبائی حکومت بھی ہے اور بلدیاتی ادارے بھی ۔پی پی پی کی 2008ءکے بعد سے مسلسل حکومت ہے مگر ہم مقامی حکومتوں کو مضبوط نہیں کرنا چاہتے۔ حکومت بڑے بڑے منصوبوں کا دعوی کررہی ہے بعض بہت اچھی سڑکیں ابھی بن بھی رہی ہیں خاص طور پر جب سے کچھ بڑے پروجیکٹ سپرہائی وے پر بننے شروع ہوئے ہیں ، مگر یہ 4کروڑ کا شہر ہے۔

لہٰذا مسئلہ ’’ای ۔چالان‘‘ کا نہیں ہے شہر کو بہتر بنانے کا ہے منصوبوں کو وقت پر مکمل کرنے کا ہے۔ ٹریفک کے نظام کو بہتر بنانا ہے اور چلیں ابتدا ای چالان سے ہی کرنی ہے تو جرمانہ کچھ مناسب رکھیں مگر کوئی بار بار قانون توڑے تو اس پر گاڑی چلانے پر پابندی بھی لگائیں ۔ مگر ’’محترم‘‘ میں پانی کب تک ٹینکر کے ذریعے استعمال کروں اور پھر پانی کا ای۔چالان بھی دوں ، بار بار گاڑیوں ، موٹر سائیکل کی نمبر پلیٹ بدلوانے کا حکم ملے تو پیسہ بھی میں ہی دوں۔ جب تک جرم و سیاست اور مافیا کا یہ کھیل چلتا رہے گا آپ کراچی کو جیت نہیں سکتے ان دوریوں اور فاصلوں کو صرف بہتر منصوبہ بندی، حکمت عملی اور اہلیت سے ہی ختم کر کے شہر اور شہریوں کوجیتا جاسکتا ہے۔ کراچی کے شہری ناراض ہیں بس اب اعتماد کریں تو کس پر کہ سب نے ہی مایوس کیا۔ کیا کوئی اپنے معاشی حب کے ساتھ ایسا بھی کرتا ہے۔

تازہ ترین