نومبر پاکستان کی اس عظیم ہستی کی پیدائش کا مہینہ ہے جس نے20 ویںصدی میں اپنی فکر اور شاعری سے وہ انقلاب برپا کیا جوتصور پاکستان کی تشکیل پر منتج ہوا۔حکیم الامت شاعر مشرق علامہ محمد اقبال نےمسلمان ہند میں جداگانہ قومیت کا احساس اجاگر کیا اور ان کی منزلِ مراد کو متعین کیا۔
اقبال پاکستان کے فکری بانی ہیں تو قائداعظم محمد علی جناحؒ اس فکر اور تصور کے عملی معمار ہیں۔ اقبال و قائد نے بے لوث، بے مثال اور اتحادِ ملی کےجذبے سے مسلمانوں کیلئےالگ ارضِ وطن کے تخیل کو حقیقت سے ہمکنار تو کردیا مگر بدقسمتی سے انکے جانشین اس مملکتِ کو سنبھال نہ سکے،وطن عزیز ترقی و استحکام کی بلندیوں کو چھو پایا اور نہ عوام اقتصادی و معاشی خوشحالی حاصل کرسکے۔ ملک میں اشرافیہ، سرمایہ کار، صنعت کار اور جاگیردار طبقے نے ملک و ملت کے وسائل کو بری طرح پامال کیا جس سے ملک کی یک جہتی اور سالمیت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔مگرحالیہ چند ماہ میںخطرات سے گھرے ہوئے ماحول ملک کی موجودہ سیاسی اور عسکری قیادت کے جان دار فیصلوںنےمایوسیوں اورمحرومیوں کی فضا میں ہمارے شکستہ دلوں کو جینے کا نیا حوصلہ عطاکیاہے۔مئی میں معرکہ حق میں بدترین شکست کے باوجود بھارت کے جنگی جنون میں کمی نہیں آئی،وہ مسلسل پاکستان کے خلاف سازشوں میں مصروف ہے،افغانستان کو اپنا اتحادی بناکر وہ مسلمان ملکوں کولڑانے میں کامیاب ہوگیا مگر پاکستان نے بھارتی اشارے پر پاکستان میں دہشتگردی پھیلانے والے افغان طالبان حکمرانوں کو بھی منہ توڑ جواب دیا، افغانستان سے جنم لینے والی دہشت گردی سے پاکستان سب سے زیادہ متاثرہ ملک ہے ، پاکستان امن کا خواہاں ہے ،مگر اپنے عوام کی سلامتی کو دہشتگردوں کے رحم کرم پر نہیں چھوڑ سکتا،افغان حکمرانوں کو عقل سے کام لینا ہوگا، چند ماہ میں ہماری افواج اور دیگر دفاعی اداروں نے دو اہم جنگوں میں فتح حاصل کر کے اپنی صلاحیتوں کالوہا منوالیا، آج امریکا سمیت دیگر بڑی طاقتیں بھی پاکستان کو اہم ترین حلیف ماننے پر مجبور ہوگئی ہیں،صدر ٹرمپ نےپاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت سےپچھلے ماہ ہونیوالی ملاقات سے قبل ہی وزیرِ اعظم شہباز شریف اور پاکستانی فوج کے سربراہ فیلڈ مارشل عاصم منیر کو ’عظیم رہنما‘ اور ’بہترین شخصیات‘ قرار دیا،کچھ برسوں پہلے تک کسی نے سوچا تک نہ تھا کہ یہ مناظر دیکھنے کو ملیں گے۔ شہباز شریف نے امریکی کمپنیوں کو پاکستان کے زرعی، معدنیات اور توانائی سے متعلق شعبوں میں سرمایہ کاری کی دعوت دی،پاکستان اور امریکا کے درمیان تعلقات میں بہتری کا اثر نہ صرف جنوبی ایشیا بلکہ مشرقِ وسطیٰ میں بھی پڑئیگا۔دونوں ممالک کے تعلقات میں ڈرامائی انداز میں بحالی ایک مثبت پیش رفت ہے،مگر ہمیں امریکا کی اس تمنا سے بھی ہوشیار رہنا ہوگا جس سے ہمارے چین جیسے دیرینہ دوست سے تعلقات میں جمود نہ پیدا ہو، ہمیں بھارت اور امریکا کے درمیان حال ہی میں ہونیوالے دس سالہ دفاعی معاہدے کو بھی سامنے رکھ کر مستقبل کی حکمت عملی بنانا ہوگی،اس بات کا بھی احساس کرنا ہوگا کہ واشنگٹن اسلام آباد اور نئی دہلی کو مذاکرات کی میز پر لانے میں مدد کر سکتا ہے یہ ایک غیر حقیقی تجزیہ ہوگا،پاکستان مئی میں مسلح تنازع کے بعد کئی بار بھارت کو مذاکرات کی پیشکش کر چکا ہے، بھارت جسے قبول کرنے کو تیار نہیں، خود بھارت میں بھی اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے مودی سرکار کو کڑی تنقید کا سامنا ہے، اسکے باوجود بھارت نے اپنی سرحد وں پر جنگی مشقوں کا آغاز کردیا ہے یہ پاکستان کیلئے خطرے کی علامت ہے، بھارت نے اپنی انتظامی ناکامیوں اور سیاسی مجبوریوں کے پیش نظر پہلگام واقعے کا ملبہ پاکستان پر ڈالا۔پاک بھارت تعلقات میں بہتری صرف اسی صورت میں آسکتی ہے جب امریکا اور اسکے اتحادی اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کا حل نکالیں جو خطے میں مستقل امن کا ضامن ہوگا،پاکستان کیلئے امریکا ایک اہم تجارتی اور اقتصادی شراکت دار ہے۔ لیکن ہمیں محتاط رہنے کی ضرورت ہے کہ کہیں نئےتعلقات کے عوض ہم امریکا کے علاقائی تنازعات کا آلہ کار نہ بن جائیں،ہمیں اپنے پرانے منصوبے سی پیک پر توجہ رکھنی چاہئے جو ملک کی معاشی ترقی کیلئے ناگزیر ہے،غزہ میں قیام امن کیلئے بیس نکاتی معاہدے کے مطابق ایک کثیر القومی فورس تعینات کی جانی ہے۔ پاکستان بھی اس فورس کا حصہ بننے کا جائزہ لے رہا ہےاس فورس میں اب تک انڈونیشیا، آذر بائیجان اور ترکیہ نے فوجی بھیجنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ ترکیہ کی پیش کش پر اسرائیل کا اعتراض بھی سامنے آیا ہے۔عام تاثر یہ ہے کہ حماس کو غیر مسلح کرنے کیلئے یہ فورس بھیجی جا رہی ہے۔ اس لئے ضرورری ہے کہ امن فورس میں پاکستان کی شمولیت کےحوالے سے وزیر اعظم شہباز شریف کو تمام سیاسی ،مذہبی جماعتوں کے ساتھ ساتھ منتخب ایوانوں کو بھی اعتماد میں لینا چاہئے،اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ امن فوج وہاں لڑنے نہیںبلکہ امن کے قیام، فلسطینی پولیس کی تربیت اور غزہ میں تعمیر نو کی نگرانی کیلئے جا رہی ہے۔پاکستانی فوج کی غزہ امن فورس میں شمولیت سےملک کا بین الاقوامی سطح پر کردار اور نمائندگی مضبوط ہوگی ، پاکستان ایک امن پسند، ذمہ دار اور علاقائی استحکام میں مددگار ملک کے طور پر اپنے تشخص کو مستحکم کرسکتا ہے۔مگر اس موقع پر جب پاکستان خود حالت جنگ میں ہے اور اندورونی محاذ پر اسے افغان اور بھارتی دہشت گردی کا سامنا ہےکوئی بھی فیصلہ جلد بازی میں نہیں بلکہ سوچ سمجھ کر کیا جانا چاہیے،مشترکہ اور متفقہ فیصلے سے امن فورس میں شمولیت یقینی طور پر پاکستان کیلئے معاشی طور بھی سود مند ثابت ہوگی۔فوج کے دستے بھیجنا ایک حساس قومی فیصلہ ہے جو صرف شفاف مشاورت اور قومی اتفاقِ رائے کے بعد ہی کیا جانا چاہئے۔