یہ بات میاں نواز شریف کے تیسری بار وزارتِ عظمیٰ سنبھالنے سے پہلے کی ہے۔ اُس وقت پنجاب میں میاں شہباز شریف کی حکومت تھی۔ لاہور میں منعقد ایک تقریب میں میاں نواز شریف طلبہ کو لیپ ٹاپ تقسیم کر رہے تھے۔ دورانِ خطاب اُنہوں نے طلبہ کو نصیحت کی کہ وہ اس لیپ ٹاپ کا غلط استعمال نہ کریں۔ یہ بات سن کر میں نے میاں صاحب کو ایک موبائل میسیج بھیجا کہ اصل ذمہ داری حکومت کی ہے کہ وہ ایسے اقدامات کرے جن سے غلط اور فحش مواد انٹرنیٹ کے ذریعے بچوں اور نوجوانوں تک پہنچنے سے روکا جا سکے۔ اس پر میاں صاحب کا جواب بڑا حوصلہ افزا تھا۔ اُنہوں نے کہا کہ اگر اُنہیں دوبارہ وزارتِ عظمیٰ کا موقع ملا تو وہ اس ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ کو یقینی بنائیں گے۔ میاں صاحب کو تیسری بار وزارتِ عظمیٰ مل گئی مگر افسوس کہ اُن کا وہ وعدہ وفا نہ ہو سکا۔ اسکے برعکس، اُن کے دورِ حکومت میں اُن کی زبان سے لبرل پاکستان جیسے نعرے سننے کو ملے جو اُن کے سابقہ بیانات اور وعدوں سے بالکل مختلف تھے۔ میاں صاحب کے بارے میں کچھ لوگوں نے یہ بات کہی کہ وہ ماضی میں اسلامی نظام کے نفاذ کی بات کرتے رہے، لیکن جب اقتدار میں آئے تو وہ وعدے پسِ پشت ڈال دیے گئے۔ آج اگرچہ میاں نواز شریف خود وزیراعظم نہیں ہیں، مگر وفاق میں اُن کے بھائی میاں شہباز شریف کی حکومت ہے اور پنجاب میں اُن کی صاحبزادی مریم نواز کی۔ حکمران جماعت کے سربراہ بہرحال میاں نواز شریف ہی ہیں۔ اس لیے ماضی کے وعدوں کا بوجھ اور اُن کی عدم تکمیل کی ذمے داری آج بھی اُن کے کندھوں پر ہے۔ اگر میاں صاحب اس احساس کو دل میں جگہ دیں تو اب بھی بہت کچھ کیا جا سکتا ہے۔ اُن کے پاس اب بھی موقع ہے کہ وہ اپنی سابقہ کوتاہیوں کی تلافی کریں۔ اسی تناظر میں سابق ڈپٹی اٹارنی جنرل راجہ ارشاد صاحب نے ایک نہایت اہم تجویز مجھے بھیجی ہے ، اس درخواست کے ساتھ کہ اسے میاں صاحب تک پہنچا دیا جائے۔ راجہ صاحب کی اس تجویز کو اس کالم کے ذریعے میاں صاحب تک پہنچانا چاہتا ہوں۔ راجہ صاحب کی رائے میں اگر میاں صاحب اس تجویز پر عمل کریں تو پاکستان میں اسلامی نظام کے عملی نفاذ کی سمت ایک مؤثر اور پائیدار قدم اٹھایا جا سکتا ہے۔ راجہ صاحب کو میاں صاحب اگر وقت دیں تو وہ اُنہیں اپنی تجویز سے متعلق تفصیلات اور ممکنہ سوالوں کے جواب بھی دے سکتے ہیں۔ راجہ صاحب چاہتے ہیں کہ میاں نواز شریف صاحب ایک ایسی یونیورسٹی کے قیام کی بنیاد رکھیں جو ایسے محققین اور سکالرز تیار کرے جو اسلامی نظام کے نفاذ کے تقاضوں کو پورا کرنے کے حل پیش کریں۔ اُنہوں نے کہا میں چاہوں گا کہ اس تجویز پر ڈاکٹر ذاکر نائیک اور دوسرے اسلامی سکالرز کے ساتھ، میری موجودگی میں، تفصیلی بات کی جائے تاکہ پورے Concept کو سمجھا جاسکے۔ راجہ صاحب کا کہنا ہے کہ بدقسمتی سے پوری مسلم دنیا میں آج تک کوئی ادارہ ایسا قائم نہیں ہوا جو اسلام کے پولیٹکل سسٹم کے قیام کے تقاضے پورے کرسکے، جامعہ الازہر جیسے ادارے بھی اس ضرورت کو پورا نہیں کرتے۔ اُنہوں نے کہا کہ تجویز کی گئی اس یونیورسٹی کے محققین قرآن و سنت کی روشنی میں اسلامی سیاسی نظام، سود سے پاک معیشت اور اسلامی سماجی علوم پر تحقیق کریں۔راجہ صاحب نے کہا کہ میں نے اس سلسلے میں کئی تصورات تیار کر رکھے ہیں، جو میں مناسب وقت پر تفصیل سے پیش کرسکتا ہوں۔
سیاست اور میڈیا میں موجود ایک طبقہ ہے جو اسلام کو صرف عبادات اور اپنی ذات تک محدود رکھنے کا قائل ہے۔ حکومت اور ریاستی امور میں اسلام کے نفاذ کی یہ طبقہ مخالفت کرتا ہے اور لوگوں کے ذہنوں میں اسلامی نظام کے نفاذ کے متعلق کنفیوژن پیدا کی جاتی ہے۔ مغرب کی طرح مخالفت دراصل پولیٹکل اسلام کی کی جاتی ہے تاکہ حکومتی اور ریاستی امورمیں اسلام کے عمل دخل کو روکا جا سکے۔ یہ سوال بھی اُٹھائے جاتے ہیں کہ آج کے دور میں اسلام کا نظام کیسے ممکن ہے۔راجہ صاحب کی تجویز ایسے سوالوں کے جواب کے ساتھ ساتھ موجودہ اسلامی نظام کے نفاذ کا رستہ ہموار کرے گی۔میاں صاحب کیلئےیہ موقع ہے کہ وہ اپنے سابقہ وعدوں کی تکمیل کیلئے عملی اقدام کریں، ایک ایسا ادارہ قائم کریں جو اسلامی تعلیمات کو جدید دنیا کی زبان میں پیش کرے اور امتِ مسلمہ کو علمی و فکری قیادت فراہم کرے۔ اگر میاں نواز شریف واقعی اسلامی نظام کے نفاذ کا جذبہ رکھتے ہیں، تو اس جامعہ کے قیام سے وہ اپنی نیت کو عمل میں ڈھال سکتے ہیں۔ یہ قدم نہ صرف اُن کے ماضی کے وعدوں کی تکمیل ہو گا بلکہ اُن کیلئے صدقہ جاریہ بھی بن سکتا ہے۔