• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ظہران ممدانی کے نیو یارک کا میئر بننے کی کامیابی سے ثابت ہوتا ہے کہ تباہ کن ٹرمپ زدہ ماحول میں بھی کامیابی کا امکان موجود رہتا ہے ۔ا س کیلئے ضرورت ایسے شخص کی ہے جو خواب کو مرنے نہ دے۔ ممدانی نے اس کیلئے جدید دنیا میں دستیاب بہترین ذریعہ استعمال کیا، جو کہ ووٹ ہے ۔ لیکن جب ووٹ کی حرمت پامال کر دی جائے ، جیسا کہ دنیا کے ہمارے حصے میں ہوتا ہے ، تو جمود کی قوتوںکے ہاتھ مضبوط ہوتے ہیں اور تشدد کے سائے گہرے ہونے لگتے ہیں ۔ پاکستان اس طرح کی خلاف ورزی کے نتائج بھگتنے کا ایک کلاسک کیس ہے۔ غیر جمہوری طریقوں کے ذریعے تبدیلی کی جگہ مسدود ہونے اور عوام کے انتخابی اعتماد سے محروم اسمبلی کے ذریعے زبردستی قانون سازی کر کے اداروں کی آواز کو خاموش کر کے پاکستان کو ٹھہرے ہوئے پانی کے تالاب میں تبدیل کر دیا گیا ہے، جو جلد ہی بدبودار ہوجاتا ہے۔ جتنا زیادہ جمود ہوگا، بدبو اتنی ہی بڑھتی جائے گی۔ پاکستان کی ترقی کی راہیں مسدود کرنیوالی روایتی رکاوٹوں نے ملک کا گلا گھونٹ دیا ہے۔ ا ن میںمفاد پرست اشرافیہ ، نام نہاد لبرل اور مذہبی طبقہ شامل ہے جورکاوٹوں اور تنگ نظری سے پاک کھلے ماحول کیلئے نقصان دہ ہے، جو آگے بڑھنے کیلئے ضروری ہے ۔ ترقی پسند قوتوں کے اندر اور باہر کے عناصر کے ساتھ ان کے تعلقات خوفناک حد تک منقطع ہیں جس نے انہیں غیر فعالیت کے گڑھے میں دھکیل دیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ اس تنگ ہوتی ہوئی جگہ کو استعمال کرنے کیلئے فکر مند ہیں جو ان کے پاس رہ گئی ہے جب کہ نظریات کی جنگ پس منظر میں چلی گئی ہے ۔

جیسے جیسے اتر آنے والا اندھیرا گہرا ہوتا جا رہا ہے، صرف امیدہی وہ عنصر ہے جو نہ صرف غیر جمہوری حملے کا مقابلہ کرنے کی طاقت پیدا کرتی ہے بلکہ روشنی کیلئے جگہ بھی بناتی ہے۔ لیکن جیسے جیسے ہماری جدوجہد اپنےعروج پر پہنچتی ہےتو مستقبل میں ہمیں ایسی امید کی شدید ضرورت ہوگی جو آزادی کے مثالی تصورکو اپنانے میں ہماری رہنمائی کرے۔ جیسا کہ ممدانی نے اپنی فتح کی تقریر میں کہا: آج رات، ہم نے واضح آواز میں کہاامید زندہ ہے ۔ ظلم ، جبر، دھن دولت اور کوتاہ بینی اور مایوسی کے مقابلے میں امید کا پرچم بلند ہے ۔ امید نہیں مرتی۔ یہ ہمیشہ زندہ رہتی ہے۔اس کا نغمہ پہاڑوں، وادیوں اور میدانی علاقوں میں گونجتا ہے،یہ ہر کونے اور شگاف میں گونجتا ہے۔ یہ سیاہ بادلوں اور چمکیلی دھوپ میں گونجتا ہے۔ یہ مایوسی کے لمحوں میں گونجتا ہے اور دوبارہ زندہ ہونے کی چمک لیے ہوتا ہے۔ یہ آپ کو تاریک کوٹھڑیوں سے اٹھاتا ہے اور آنے والے کل کے سامنے لے آتا ہے، یہ ایک لامتناہی احساس کی طرح ہے، آپ کو از سرنوتخلیق کرتا ہے۔لیکن ایسے لمحات آتے ہیں جب امید پر یقین کی کڑی جانچ ہوتی ہے۔ ایسا اس وقت ہوتا ہے جب فیصلہ سازی کے عمل اور درپیش چیلنجوں میں کوئی ربط نہیں ہوتا اور لائحہ عمل تبدیل کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ بدقسمتی سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہم جمود کے اس مقام پر پہنچ چکے ہیں جہاں ہم عوام کی ہوشربا بے چینی کو دیکھ نہیں پا رہے جو یہ محسوس کرتے ہیں کہ انھیں ریاستی امور چلانے والوں کی اہلیت اور قابلیت پر بھروسہ نہیں ۔ وہ اکثر اس گھنائونے فعل پر بات کرتے ہیں کہ کس طرح گزشتہ انتخابات چوری کیے گئے تھے اور ایسے لیڈران کے ہاتھ ملک کی باگ ڈور تھما دی گئی جو مینڈیٹ سے محروم ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ احساس محرومی مزید گہرا ہوتا چلا گیا ہے خاص طور پر موجودہ نظام کے عوام کو ریلیف دینے اور مستقبل کی امید دلانے میں ناکامی کی وجہ سے۔ پچھلے تین سال میں ہونے والی غیر معمولی ہجرت سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہاں سے جانیوالے اس ملک میں اپنا مستقبل نہیں دیکھ رہے تھے۔ یہ کسی بھی دوسرے ملک میں خطرے کی گھنٹی بجادیتا، لیکن یہاں ایک پتا تک نہیں کھڑکا۔ درحقیقت حکمران اشرافیہ میں سے کچھ نے مزید لوگوں کو یہاں سے نکل جانے کی ترغیب دی ہے۔ یہ ایک ظالمانہ مذاق کی طرح ہے۔ہم اپنی تاریخ کے پست ترین دور سے گزر رہے ہیں، اوراس کی بہت سی وجوہات ہیں۔ یہ زوال اس کٹر ذہنیت اورمفاد پرست اشرافیہ کے خوف کی وجہ سے ہے کہ ان کی سیاسی سلطنت تباہ ہوجائے گی جس کے بل بوتے پر وہ یہاں سے ناجائز دھن دولت سمیٹ کر بیرونی ممالک میںجائیدادوں او ر کاروبار میں سرمایہ کاری کرتے ہیں ۔عوام میں واضح مایوسی نے حکمران طبقے کو خوفزدہ کر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ عوام کو اپنے شکنجے میں جکڑا رکھنے کیلئے نت نئے ہتھکنڈے اپنا رہے ہیں۔ اس کا تازہ ترین مظہر آئین میں مجوزہ 27ویں ترمیم ہے جس میں خاص طور پر آئینی عدالت کا قیام، ایگزیکٹو مجسٹریسی نظام کی بحالی، ججوں کے تبادلے، صوبائی حصے کے حوالے سے این ایف سی ایوارڈ میں ترمیم، مسلح افواج کی بابت آرٹیکل 243، تعلیم اور آبادی کے محکموں کا کنٹرول وفاق کو دینے اور الیکشن کمیشن میں تقرریوں کی بابت بہت سے مسائل ہیں۔ اس میں کچھ دیگر حساس مسائل بھی ہیں جن کا آگے بڑھنے سےپہلے محتاط مطالعہ اور جانچ درکار ہے ۔ مجوزہ ترمیم ممکنہ طور پر وفاق اور صوبوں کے درمیان طاقت کے موجودہ توازن کو متاثر کر سکتی ہے۔ یہ 18ویں ترمیم کو جزوی طور پر تبدیل کرنے کے مترادف بھی ہوگا جس سے کچھ متنازعہ بحث جنم لے سکتی ہے۔ یہ سب کچھ ریاست کے معاملات کنٹرول کرنے والوں کی گرفت کو مزید مضبوط کرنے کیلئے کیا گیا ہے تاکہ اختلافی آوازوں کی گنجائش بالکل ہی ختم کر دی جائے۔

ہمیں تبدیلی کیلئے امکان کی کھڑکی کھولنے کی ضرورت ہے، جس کا مطلب ہمارے نقطہ نظر اور ہماری ذہنیت میں تبدیلی ہے۔ آمرانہ کنٹرول کی بجائے مشاورت، چند افراد کے انفرادی فائدے کی بجائے عوام کی فلاح و بہبود ، جبر کی بجائے جمہوری جذبے ، محروم اور پسماندہ افراد کیلئے حقارت کی بجائے ان کی جانوں اور ان کے وقار کے احترام پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔ممدانی نے اتنا پرامن انقلاب برپا کردیا ہے جتنا کوئی سوچ سکتا ہے ۔ ہمارے درمیان تبدیلی کیلئےگنجائش پیدا کرنے کی ضرورت ہے ورنہ ریاست کمزور ہوتی چلی جائے گی۔ ہم بھی ایسا انقلاب برپا کر سکتے ہیں ، اور ہمیں ایسا ضرور کریں  گے ۔ (کالم نگار پی ٹی آئی کے رہنما ہیں)

تازہ ترین