• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عالمی اسپیکرز ہاؤس،مکافات نگر

آنریبل اسپیکر ایاز صادق صاحب

گڈ آفٹر نون و السلام علیکم:آپ میرے نام سے واقف تو ہونگے کیونکہ آج سے52سال پہلے جب 1973ء کا متفقہ آئین منظور ہوا تو میں قومی اسمبلی کا اسپیکر تھا ۔آئین منظور ہوا تو میںفضل الٰہی چوہدری آف گجرات اس آئین کے بعد پہلا آئینی صدر ِپاکستان بنا اور میری جگہ پر ملتان کے صاحبزادہ فاروق علی خان اسپیکر بن گئے۔ اسپیکرز کے یادگاری بورڈ پر آپ نے سابق اور مرحوم اسپیکرز کے نام تو ضرور پڑھے ہونگے ہم تمام اسپیکرز دوسرے مرحوم بین الاقوامی اسپیکرز کیساتھ عالم بالا میں اکٹھے ہی رہتے ہیں۔ گزشتہ ہفتے سے دنیا بھر کے اسپیکرزمجھ سے آپ کے بارے میں استفسار کرتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ اسپیکرز کا رول کیا ہوتا تھا اور اب کیا ہے؟ ماضی میں اسپیکرز قانون سازی اور ترامیم کے وقت کیا طریق کار اختیار کرتے تھے اور آج کل کیا طریقہ اپنایا جارہا ہے، ماضی میں کن مواقع پر اسپیکرز نے تضادستان میں سیاسی مفاہمت میں کردار ادا کیا اور کب کب اسپیکرز نے اپنے فرض منصبی کےبرعکس لڑائی بڑھانے میں کردار ادا کیا۔ پارلیمنٹ یا قومی اسمبلی دراصل حکومت اور ریاست میں عوامی نمائندگی ہے جبکہ اسپیکر اس ایوان کا نگہبان ہوتا ہے اسپیکر حزب اقتدار اور حزب اختلاف سے بالاتر اور ملک کے منتخب افراد کا سب سے بڑے رتبے والا فرد ہوتا ہے۔

آنریبل اسپیکر صاحب !

آپ کے علم میں ہوگا کہ پاکستان کی پہلی قانون ساز اسمبلی کے صدر اور اسپیکر قائداعظم محمد علی جناح تھے۔ عالم بالا میں جب بھی ہم پاکستانیوں کو کوئی پریشانی لاحق ہوتی ہے تو ہم قائداعظم سےرجوع کر کے ان سے رہنمائی لیتے ہیں، اس بار چونکہ 1973ء کے آئین میں ترامیم کا معاملہ تھا تو ہم نے ذوالفقار علی بھٹو سے بھی اپنے ہمراہ چلنے کی درخواست کی، برطانوی لیجنڈری اسپیکر جان برکو کے والد کو بھی اعزازی طور پر وہاں بلایا گیا کیونکہ جان برکو نے بریگزٹ کے دوران پارلیمانی اتھارٹی کو سب سے منوایا، یہ جان بر کو ہی ہے جسکا آرڈر ،آرڈر دنیا بھر کی پارلیمانی آواز اور عوامی امنگ کی علامت ہے۔ صاحبزادہ فاروق، ملک معراج خالد اور دیگر بھی بابائے قوم کے پاس حاضر ہونیوالوں میں شامل تھے۔ بابائے قوم نے سب سے پہلے تو تمام مرحوم پاکستانی روحوں کو بھارت پر پاکستانی فتح پر مبارکباددی ،سفید ساڑھی میں ملبوس سفید مالا پہننے فاطمہ جناح بھی بابائے قوم کے ہمراہ تھیں۔ ذوالفقار علی بھٹو اپنی اہلیہ نصرت بھٹو اور بے نظیر کیساتھ تشریف فرما تھے۔ اجلاس کا آغاز میں نے کیا اور بابائے قوم سے عرض کیا کہ 1973ء کے متفقہ آئین میں بڑی بڑی تبدیلیاں اور ترامیم ہو رہی ہیں ساری پاکستانی روحوں کا خیال تھا کہ اگر کسی ترمیم کی ضرورت ہے تووہ آئین کے آرٹیکل 140کی وضاحت ہے تاکہ مقامی حکومتوں کو آئینی اور مالی خودمختاری کا تحفظ مل سکے اور کروڑوں لوگوں کے مسائل مقامی سطح پر حل ہو سکیں۔ میں نے یہ بھی عرض کیا کہ اب تک جو ترامیم آئی ہیں وہ یا تو عدلیہ کی آزادی کو محدود کرنے کے بارے میں ہیں یا حکومت و مقتدرہ کو محفوظ و مامون کرنے کیلئے ہیں۔ میں نے یہ بھی کہا کہ عدلیہ نے آزادی کا ناجائز فائدہ اٹھایا اور آئین کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے وزیراعظموں کو بدلنے کیلئےسیاست میں ٹرمپ کارڈ کا کردار اپنایا، اسے محدود کرنا ناگزیر تھا، فوج کو بھی جدید بنانا ضروری ہے مگر تاثر یہ مل رہا ہے کہ سب قانون سازی عہدوں کے تحفظ اور حکومت کی مضبوطی کیلئے کی جا رہی ہے اس میں عوامی بھلائی، سستے انصاف تک رسائی اور غریبوں کی خوشحالی و ترقی کیلئے کوئی قانون سازی شامل نہیں۔ ملک معراج خالد نے ان آئینی ترامیم کے حق میں دلائل دینا شروع کر دیئے اور کہا کہ یہ آئینی ترامیم بشمول 27ویں ترمیم نظام کو چلانے کیلئے ضروری تھیں، صاحبزادہ فاروق علی خان نے کہا کہ ان ترامیم کے ذریعے آئین کی روح پامال کی جارہی ہے، ملک کے اندر اب ہائبرڈ سسٹم نہیں بلکہ نیم مارشل لا نافذ کر دیا گیا ہے اب سب نظریں ذوالفقار علی بھٹو کی طرف تھیں۔ بھٹو صاحب مسلسل بینظیر اور نصرت کیساتھ سرگوشیوں میں صلاح مشورہ کر رہے تھے۔ محترمہ فاطمہ جناح نے بالآخر کہا کہ بھٹوز کے وارث مخلوط حکومت میں ہیں اسلئے آپ اپنی رائے دیں بھٹو صاحب اور بے نظیر تو خاموش رہے نصرت بھٹو نے کہا کہ میرے نواسے بلاول بھٹو نے تمام متنازعہ ترامیم کو ختم کروا دیا ہے صرف فوج کے اندر یہ اسٹرکچرل ترامیم کی جارہی ہیں جو حالیہ پاک بھارت جنگ کے بعد ضروری ہوگئی تھیں۔ اسی دوران ایسا لگا کہ بینظیر نے اپنی والدہ کے کان میں کچھ کہا تو بیگم نصرت بھٹو نے جھرجھری سی لی اور پہلو بدل کر خاموش ہو گئیں۔ سب باتیں ختم ہوئیں تو بابائے قوم گو یاہوئے کہ پاک بھارت جنگ میں حالیہ فتح سے عالم بالا کے پاکستانیوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے، اب ضرورت ہے کہ قوم کے اندر اختلافات کو ختم کرکے اتحاد اور مفاہمت کی طرف جایا جائے۔ قائداعظم نے آخر میں کہا کہ ہمارا ملک جمہوریت اور الیکشن کے ذریعے بنا ہے اور اسکا مستقبل بھی جمہوریت اور سول آزادیوں میں ہے اگر ان آزادیوں کو محدود کیا گیا تو اس سے ملک کو فائدہ نہیں نقصان ہوگا۔ قائداعظم کے اختتامی جملے پر بھٹو صاحب سمیت سب نے کھڑے ہو کر تالیاں بجائیں، صاحبزادہ فاروق علی خان نے جمہوریت زندہ باد کے نعرے لگائے۔ ملک معراج خالد نے فوج اور جمہوریت زندہ باد کا نعرہ لگوایا۔ میں نے اختتامی فقروں میں سب حاضرین کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ پاکستان کے جمہوری لوگ، آئینی اور قانونی تبدیلیوں پر نظر رکھے ہوئے ہیں اگر بات جمہوریت کو براہ راست نقصان پہنچنے تک گئی تو ہم دوبارہ اجلاس کر کے جمہوریت اور سویلین آزادیوں کے حق میں ایک متفقہ قرارداد پیش کرینگے اور قائداعظم براہ راست وزیراعظم اور صدر پاکستان کو خط لکھ کر اصلاح احوال پر زور دیں گے۔

آنریبل اسپیکر صاحب!

مجھے ذاتی طور پر آپ سے گلہ اور شکوہ ہے کہ آپ مجلس شوریٰ کے اسپیکر کی طرح گنگ بیٹھے ہیں جمہوری اسپیکر تو برطانوی جان برکو (Burcow) جیسے ہوتے ہیں جو عوام کو جوڑتے، سیاسی مفاہمت کرواتے اور جمہوری اقدار کی حفاظت کرتے ہیں ،کئی الیکشن گزرے، کتنا وقت گزر گیا لیکن قومی اسمبلی آج بھی مچھلی منڈی بنی ہوئی ہے، عرصۂ دراز سے سیاست اور جمہوریت کے بارے میں خوش کُن واقعات سننے کو کان ترس گئے ہیں۔ آپکو موقع بھی ملا، دونوں جماعتوں کے اکابر آپ کی سربراہی میں ملے بھی لیکن کوئی تصفیہ یا کوئی فارمولا طے نہ ہو سکا ،حد تو یہ ہے کہ مذاکرات سازگار بنانے کیلئے جو ابتدائی مراحل طے ہونا تھے وہ بھی طے نہ ہو سکے۔ اس ملک کے عوام کا گلہ آپ سے بنتاہے، آپ عوام کے ایوان کے نگہبان ہیں آپ کو صلح صفائی مصالحت اور پارلیمان کی کارروائی کو باوقار بنانے کیلئے جو کردار ادا کرنا چاہئے تھا وہ نظر نہیں آرہا ۔مجھے بھارت کے لیجنڈری اسپیکر پریم شنکر جھا کا یہ قول یاد ہے کہ اسپیکر کے گلے میں کانٹوں کا ہار ہوتا ہے وہ حکومت کی طرف جھکے تو اپوزیشن ناراض ہوجاتی ہے اور اگر اپوزیشن کی حمایت کرے تو حکومت اس پر زمین تنگ کر دیتی ہے۔ آنریبل اسپیکر!

آپ ایک باوقار، شائستہ اور جمہوری آدمی ہیں آپکو ہاتھ باندھ کر بیٹھنےکی بجائے بحران کے حل کیلئے ہا تھ پاؤں مارنے چاہئیں۔

والسلام........ فضل الٰہی چوہدری، سابق اسپیکر قومی اسمبلی، سابق صدر پاکستان

تازہ ترین