• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آئین کی 26ویں ترمیم کے بعد مجوزہ 27ویں آئینی ترمیم کو دیکھیں تو محض الفاظ پڑھنے سے معلوم ہوجائیگا کہ پاکستان کی آزاد عدلیہ کو زنجیروں میں جکڑا جا رہا ہے اور اُ س کی خودمختاری کو ختم کیا جا رہا ہے۔ تاہم اگر زمینی حقائق اور پاکستان کی تاریخ کو دیکھیں تو ہماری عدلیہ اور عدالتی نظام تو کب کا تباہ ہو چکا، یہ تو کبھی آزاد اور خودمختار تھا ہی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کسی بھی شخص سے پوچھیں کسی کو نہ عدالتوں پر کل بھروسہ تھا نہ آج ہےکیونکہ ہماری عدالتیں انصاف دینے سے ہی قاصر ہیں۔ ابھی تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ 26ویں اور 27ویں آئینی ترمیم نے سب کچھ تباہ کر دیا اور عدلیہ کی آزادی کو چھین کر اسے انتظامیہ اور اسٹیبلشمنٹ کا غلام بنا دیا۔ لیکن پاکستان کی تاریخ کی ایک بڑی آزاد عدلیہ کی بحالی کی تحریک کی کامیابی کے بعد آئین میں ترامیم کر کے پاکستان کی عدلیہ کو آئینی طور پر مضبوط ترین اور مکمل آزاد اور خودمختار کر دیا گیا تھا۔ اس کے بعد کیا ہماری عدلیہ آزاد ہوئی؟ کیا جلد اور سستا انصاف ملنا شروع ہوا؟ کیا ججوں نے اسٹیبلشمنٹ کا مہرہ بننے سے انکار کیا؟ کیا عوام کو انصاف کی فراہمی شروع ہوئی؟ کیا ججوں کی سیاست اور اُن کی سازشیں تھم گئیں؟ افسوس کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ اس کے برعکس انصاف پہلے سے مہنگا ہو گیا، سازشیں اور ججوں کی سیاست عروج پر پہنچ گئی اور عوام جس نے عدلیہ بحالی تحریک میں اپنا خون پسینہ دیا اُسکو عدالتوں میں دھکوں کےسواکچھ نہ ملا۔ پاکستان کی عدلیہ اور ججوں کے اسی رویہ کی وجہ سے انتظامیہ، مقننہ اور اسٹیبلشمنٹ نے بھی کھل کر عدلیہ کو آئینی اور قانونی طور پر قابو کرنے کا کام شروع کر دیا۔ اب بہت لوگ سوچتے ہیں کہ عدلیہ کی آزادی کیلئے ایک اور تحریک کیوں شروع نہیں کی جا رہی؟ تو اس کا جواب بڑا سادہ ہے۔ عدلیہ اور ججوں نے عوام کو کیا دیا کہ عوام اُن کیلئے سڑکوں پر نکلیں۔ اگر عدلیہ اور ججوں نے عوام کو انصاف دیا ہوتا، لوگوں کو عدالتوں اور ججوں پر اعتماد ہوتا تو کسی کے کہے بغیر ہزاروں لاکھوں لوگ سڑکوں پر ہوتے۔ یہاں تو جب آئینی طورپر عدلیہ کی آزادی اور اس کی خودمختاری عروج پر تھی ، اُس وقت بھی اعلیٰ ترین عدلیہ کے جج سیاست کرنے میں عروج پر تھے۔ اسٹیبلشمنٹ اور آزاد اور خودمختار عدلیہ کا گٹھ جوڑ کسی سے ڈھکا چھپا نہ تھا۔ ججوں میں سیاسی تقسیم اتنی واضح تھی کہ سیاسی نوعیت کا کیس کسی جج کے سامنے لگتا تھا تو پتا چل جاتا تھا کہ فیصلہ کیا ہو گا۔ اعلیٰ عدلیہ کے جج ’’میرا جج ،تیرا جج‘‘کی تقسیم میں اس حد تک سیاسی طور پر عیاں ہو چکے تھے کہ بحیثیت مجموعی عدلیہ کی رہی سہی ساکھ بھی ختم ہو گئی اور اس بیک گراؤنڈ میں پہلے 26ویں اور پھر 27ویں آئینی ترمیم کا رستہ کھلا۔ ماضی کی عدلیہ بحالی تحریک میں وکلاء اور میڈیا کا اہم کردار تھا۔ اب وکلاء میں حکومت کے حمایتیوں کی اکثریت ہے جبکہ میڈیا کو بھی کوئی نئی تحریک شروع کرنے میں نہ دلچسپی ہے نہ شاید اس کی اجازت ہے۔ آئین کی 27ویں ترمیم تو مجھے با آسانی منظور ہوتی ہوئی نظر آ رہی ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ کیا سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج بالخصوص اور دوسری ہائی کورٹس کے جج بالعموم کوئی انقلابی قدم اُٹھارہے ہیں یا اپنی نوکریوں،بھاری تنخواہوں اور پنشن کی کشش کی وجہ سے خاموش بیٹھے رہیں گے اور انقلاب کی امیدیں دوسروں سے لگائے رکھیں گے۔ 26ویں آئینی ترمیم کے بعد کچھ ججوں کے حوالے سے ممکنہ استعفوں کی خبریں پہلے بھی سامنے آتی رہیں، یہ بھی اطلاعات تھیں کہ کچھ جج اپنی پانچ سال کی سروس مکمل ہونے کا انتظار کر رہے ہیں تاکہ پنشن لینے کے اہل ہو جائیں پھر استعفیٰ دینے کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔ کوئی پوچھے ایسے بھی انقلاب آتے ہیں!!! ایسے تو کچھ نہیں ہونے والا۔ جہاں تک انتظامیہ، مقننہ اور اسٹیبلشمنٹ کا تعلق ہے تو اُن کی بھی دلچسپی عدلیہ اور ججوں کو قابو کرنے میں ہے۔ ورنہ آئینی ترمیم تو کوئی ایسی بھی ہو سکتی تھی کہ عوام کو جلد اور سستا انصاف ملے، انصاف کے حصول کیلئے لوگ سالہاسال عدالتوں اور کچہریوں میں دھکے نہ کھائیں۔ کاش انتظامیہ، اسٹیبلشمنٹ ،مقننہ عوام کو جلد اور سستا انصاف دینے کے بارے میں سوچتے! کاش ہماری عدلیہ اور ججوں نے سیاست کی بجائے عام پاکستانی کو جلد اور سستا انصاف دیا ہوتا!

تازہ ترین